Hesperian Health Guides

مرد جنسی امراض سے بچائو کی ذمے داری میں شریک ہیں

اس باب میں:

’’مردانگی‘‘ کے احساس کی وجہ سے مرد اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات ان کے اختیار میں ہے کہ کب اور کیسے جنسی عمل کیا جائے۔ بعض مردوں کے نزدیک اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے ایک سے زیادہ جنسی ساتھی ہوں یا اس بات کو اپنی بیوی یا دوست لڑکی سے چھپائیں۔ مرد یہ بھی محسوس کرسکتے ہیں کہ جنسی امراض سے تحفظ کی فکر کرنا مردانگی کے خلاف ہے یا یہ کہ اپنی صحت کی فکر کی جائے۔ یہ تسلیم کرنے میں وہ شرم محسوس کرسکتےہیں کہ مردوں سے جس صنفی کردار کی توقع کی جاتی ہے، وہ اس کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مثلاً دوسرے مردوں سے جنسی تعلقات یا اس بات کو ترجیح دینا کہ طاقت اور تشدد کے بغیر مسائل حل کیے جائیں۔

لیکن بعض مرد نہایت سرگرمی سے صنفی برابری کو فروغ دے رہے ہیں۔ تشدد سے بچائو کے لیے کام کررہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ مرد اور عورتیں کس طرح صحت مندانہ جنسی تعلقات رکھ سکتے ہیں۔ کتاب کے اکثر ابواب میں ان سرگرمیوں کی مثالیں دی گئی ہیں۔ خاص طور پر دیکھیں باب: ۶ ’’صنفی بنیاد پر تشدد کا خاتمہ‘‘ اور باب۸: ’’صحت مند حمل اور محفوظ زچگی‘‘۔ نیچے چند مثالیں دی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ مرد کن طریقوں سے جنسی بیماریوں، خاص طور پر ایچ آئی وی سے بچائو کے لیے منظم ہورہے ہیں۔

مرد بحیثیت ہم عمر استاد اور مثالی کردار

جنسی صحت کے فروغ میں مردوں کو شامل کرنے کا ایک موثر طریقہ یہ ہے کہ انھیں رہبر تسلیم کیا جائے اور ان کی کوششوں کو سراہا جائے۔ پوری دنیا میں متعدد پروجیکٹس اس بارے میں دوسرے مردوں کو سننے اور ان سے بات چیت کرنے کی تربیت دے رہے ہیں کہ وہ کس قسم کے مرد، شوہر اور باپ بننا چاہتے ہیں۔

تنزانیہ میں مرد ایچ آئی وی سے تحفظ کے چیمپئن بن گئے

تنزانیہ کا ’’چیمپئن پروجیکٹ‘‘ مردوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ خاندان کی صحت کے معاملات میں شریک ہوں اور ایچ آئی وی اور دیگر جنسی امراض کے پھیلائو کو روکنے میں حصہ لیں۔ منصوبے کے تحت مرد و عورت کے تعلقات میں مشترکہ فیصلے کرنے اور جنسی تعلقات کے محفوظ طریقوں کے لیے مردوں کے کردار کے بارے میں قومی سطح پر مباحثے کو فروغ دیا جاتا ہے۔

تنزانیہ کی سیاسی اور عوامی زندگی میں تمام فیصلے مرد کرتے ہیں، لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ خاندان کی صحت کے معاملوں میں مرد شریک نہیں ہوتے۔ چیمپئن کے منتظمین نے پتہ لگایا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ منتظمین نے ملک کے متعدد اضلاع میں سماجی اور مقامی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اور سوال کیا کہ ’’آپ کے علاقے کا کون سا مرد اپنے خاندان یا محلے/ بستی کی صحت کی بہتری کے لیے سب سے زیادہ کام کرتا ہے؟‘‘ ہر گائوں میں ایسے دو تین مردوں کے نام لیے گئے۔ بظاہر یہ مردوں کی تھوڑی سی تعداد نظر آتی ہے لیکن چیمپئن پروجیکٹ کے نزدیک یہ ایک اچھا آغاز ہے۔

illustration of the below: a man helping a man and woman who seem angry with each other.
illustration of the below: a man with 1 wife.
ایک آدمی گھریلو مارپیٹ روکنے اور ان خاندانوں میں امن و سکون بحال کرنے کےلیے کام کررہا ہے، جہاں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ ایک شخص نے فیصلہ کیا کہ وہ صرف ایک بیوی رکھے گا اور اس کے ساتھ وفادار رہے گا۔ گائوں کے دوسرے مرد ایسا نہیں کرتے۔

پروجیکٹ کے تحت بستی کی سطح پر میٹنگیں بلائی جاتی ہیں جہاں یہ مرد اپنی زندگی، خواہشوں کے محرکات اور اچھی صحت کے فروغ کے لیے کی گئی اپنی کوششوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان مردوں کی گفتگو سننے کے بعد ہر محلے یا بستی کے لوگ ان میں سے ایک کو اپنا ’چیمپئن‘ منتخب کر لیتے ہیں۔

illustration of the below: pictures of the 12 CHAMPION men.

پھر ہر ایک کو یہ بتانے کے لیے کہ تنزانیہ میں ایسے مرد بھی ہیں، چیمپئن پروجیکٹ چند منتخب مردوں کا گروپ تشکیل دیتا ہے اور ان کے بارے میں قومی سطح پر مہم چلاتا ہے۔ مہم میں 12مردوں کی تصویروں کے ساتھ ان کے واقعات کی تشہیر کی جاتی ہے۔ پورے ملک کو توجہ دلانے کے لیے انھوں نے دارالحکومت میں ایک بڑی تقریب کی۔ نئے سال کے موقع پر ان 12مردوں کی تصویروں اور ان کے حالات و واقعات کے بارے میں ایک کیلنڈر شائع کیا جو پورے ملک میں تقسیم کیا گیا۔

پروجیکٹ کے تحت صنف کے بارے میںآگہی پیدا کرنے کے لیے مردوں کو ان معاملوں کی تربیت دی گئی: نوجوانوں اور بزرگوں کے جوڑوں کی کونسلنگ ، ایچ آئی وی اور دوسری جنسی بیماریوں سے بچائو کے لیے مردوں سے بات چیت کرنا اور دوسرے مردوں کو یہ سمجھنے میں مدد دینا کہ صنفی کردار ان کی اور ان کے خاندان کی صحت کو کس طرح نقصان پہنچاتا ہے۔

مردوں کے جمع ہونے کی جگہ اجتماعی تعلیم

سماج میں تبدیلی کی خاطر مردوں کو کسی کام میں شامل کرنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ ان سے وہاں جاکر ملا جائے جہاں وہ کسی سرگرمی کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ کھیل کی جگہیں اور مذہبی تقاریب، کام کی جگہیں، سواری تبدیل کرنے کے مقامات اور مردوں کی سماجی سرگرمیوں کے مقامات، مثلاً کیفے، ریستوران، ٹرک اسٹاپ، یالاری اڈا وغیرہ۔ مردوں کو ایچ آئی وی کے بارے میں معلومات پہنچانے کی یہ اچھی جگہ ہیں جہاں انھیں جنسی امراض پر بات چیت میں شریک کیا جاسکتا ہے۔

تعلیمی منصوبوں کو ایسے جگہوں پر لے جانا بھی اہم ہے جہاں مرد، جنسی ملاپ یا منشیات کے حصول کے لیے دوسرے مردوں سے ملتے ہیں۔ اگر آپ ایسے مقامات پر جاتے رہیں اور لوگوں کو یہ احساس دلائیں کہ آپ ان پر تنقید نہیں کررہے، انھیں بدلنے کے لیے نہیں آئے یا آپ کا پولیس سے تعلق نہیں ہے ، تو وہ آپ پر اعتماد کرنے لگیں گے۔ کنڈوم کی مفت تقسیم یا انجکشن کی سوئی کو جراثیم سے پاک کرنے کا طریقہ سکھا کر آپ اپنی گفتگو شروع کرسکتے ہیں۔

a dance instructor speaking to his students while holding a box of condoms.
جانے سے پہلے کنڈومز لینا نہ بھولیں
برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو کی تنظیم بیم فیم نے ایک مشہور سمبا اسکول میں جاکران لوگوں سے ملنے کا فیصلہ کیا جو شہر کے بین الاقوامی میلے میں حصہ لینے کے لیے رقص سیکھنے آتے تھے۔ انھوں نے رقص سکھانے والے استاد کو سکھایا کہ سمبا ڈانس کے سبق کے ساتھ نوجوانوں کو جنسی امراض اور ایچ آئی وی سے بچائو کے طریقے کیسے سکھائے جائیں۔ اس طریقے سے وہ اپنا پیغام بہت زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔

صنفی بنیاد پر تشدد کی مخالفت

جبری جنسی ملاپ اور پُرتشدد جنسی عمل عورتوں کو کئی طرح نقصان پہنچاتا ہے جن میں جنسی امراض کا پھیلائو بھی شامل ہے۔ جنسی بیماری لاحق ہونے کے بعد عورت تشدد کا نشانہ بن جاتی ہے۔ ایچ آئی وی کی مریض بہت سی عورتوں نے الزام لگایا کہ ان کے خاندان کے افراد انھیں مارتے پیٹتے ہیں اور گھر سے نکال دیتے ہیں۔ اس رویے کی مخالفت کرنے والے مرد، عورتوں کے خلاف تشدد ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

مرد بحیثیت رفیق

چند سال پہلے کی بات ہے، جنوبی افریقہ کے مردوں کا ایک گروپ اس بارے میں سخت فکر مند تھا کہ ایچ آئی وی انفیکشن اور صنفی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد میں اضافہ ہورہا ہے۔ انھوں نے دیکھا کہ ان میں بڑا مسئلہ دوسرے مسئلے کو بدترین بنا دیتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ تشدد اور ایچ آئی وی کے پھیلائو کو کم کرنے میں مردوں کو شامل کرنا نہایت اہم ہے، چنانچہ انھوں نے اس کام کے لیے ایک گروپ بنایا جسے مین ایزپارٹنرز (Men As Partners-MAP) کا نام دیا گیا۔ میپ کا ایک اہم مقصد تشدد کے خاتمے میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کے لیے مردوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ایچ آئی وی سے متعلق بچائو، دیکھ بھال اور تعاون میں زیادہ ذمے داری قبول کرنے پر آمادہ کرنا تھا۔ ایک اور مقصد مردوں کو اپنے رویے ، اقدار، اظہار اور اقدام کے طریقوں اور مردانگی کے بارے میں خیالات پر سوچ بچار کرنے میں مدد دینا بھی تھا۔ ’میپ‘ مردوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ بعض صنفی توقعات، ان کی بیویوں/ جنسی ساتھیوں اور خاندان کے علاوہ خود مردوں کی صحت کو کس طرح نقصان پہنچاتی ہیں۔

صنفی کرداروں اور طویل مدت سے ان کی بنیاد پر قائم رویوں اور اظہار کے برسوں پرانے طریقوں کی پیچیدہ الجھنوں سے نمٹنے کے لیے ’میپ‘ نے مردوں اور لڑکوں کے گروپ کے ساتھ مختلف طرح کے ماحول میں ورکشاپس منعقد کیے۔ ان مقامات میں اسکول، دفاتر، کارخانے، بازار، مزدور یونینوں کے دفتر، جیل، مذہبی تنظیموں کے دفاتر، کمیونٹی ہالز اور کھیل کے میدان اور کلبس شامل تھے۔ ان ورکشاپس میں مباحثے، گفتگو، رول پلے اور دیگر ایسی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں جن میں شرکأ حصہ لے سکیں، تاکہ انھیں تشدد، جنسی تعلقات، بطور والدین بچوں کی تربیت، گھر کے افراد کی دیکھ بھال سے متعلق مسائل اور امور کو سمجھنے کا موقع ملے اور وہ یہ جان سکیں کہ صنفی کردار، عورتوں اور مردوں کے انتخاب کو کس طرح محدود کردیتا ہے۔

a man speaking to a small group of men.
ہم نے ایک سروے کیا، جس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہم میں سے اکثر مرد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی عورت جنسی کشش والا لباس پہنے اور اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی جائے تو قصور وار عورت ہے۔ آئیں اب اس پر بحث کرتے ہیں۔

’میپ‘ گروپ والے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ مرد صنفی برابری کے لیے کام کررہے ہیں، بعض دوسری سرگرمیاں بھی منعقد کرتے ہیں، جن میں اسٹریٹ تھیٹر، ریلیاں، دیواری تصویریں اور تشہیر کے دیگر ذریعے شامل ہیں۔ مردوں کے لیے جنسی امراض کے علاج کی سہولتیں بہتر بنانے

کے لیے صحت کارکنوں اور طبی عملے کو تربیت بھی دی جاتی ہے۔ پورے جنوبی افریقہ میں متعدد تنظیمیں میپ نیٹ ورک میں شامل ہوگئی ہیں۔ براعظم افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے ۱۵ملکوں میں مین ایز پارٹنرز (MAP) پروگرام جاری ہے۔