Hesperian Health Guides

صحت مندانہ تعلقات کے لیے بات کریں

اس باب میں:

جنسیت میں اختلافات کا مطلب یہ ہے کہ مختلف لوگ تعلقات میں مختلف چیزیں پسند کرتے ہیں اور ان کی ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ صحت مندانہ تعلقات_ خاص طور پر صحت مند جنسی تعلقات_ کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو جو مطلوب ہے یا وہ جو چاہتے اسے صاف الفاظ میں بیان کریں اور یہ یقین کریں کہ دوسرا شخص ان کی بات سمجھ لے گا۔ مثلاً عورت کی ضرورت ہے کہ وہ اس قابل ہو کہ اپنے ساتھی کو بتا سکے کہ وہ جنسی عمل میں شریک ہونا چاہتی ہے یا نہیں، کس چیز کو کرنے میں وہ سہولت محسوس کرتی ہے یا نہیں، کیا چیز اسے لطف دیتی ہے، کیا وہ کنڈوم یا کوئی اور حفاظتی طریقہ استعمال کرنا چاہتی ہے، یا ان کے علاوہ کوئی بھی دوسری چیز جو اسے اس تعلق کو اچھا محسوس کرنے میں مدد دے۔ اس کے بعد دونوں مل کر جنسی عمل میں شریک ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس عمل کو مذاکرات کہتے ہیں۔ ایک فرد دونوں کے لیے فیصلہ نہیں کرسکتا!

2 women having a conversation.
If I were brave enough, I’d tell him that licking me down there feels better than having his penis inside me.
I think my partner was relieved when I guided his hand to where I wanted it. And he could definitely tell when he found the rhythm that worked for me! And all that happened without me saying a word!


گروپ مباحثے سے جنسیت کے اختلاف کو سمجھنے میں عورتوں اور مردوں کو مدد ملتی ہے

سماجی تنظیم ’’امید کی حکمت عملی‘‘ (اسٹریٹیجیز فار ہوپ) عورتوں اور مردوں کے لیے ’’باتوں کا وقت‘‘ (ٹائم ٹو ٹاک) کے نام سے ایک ورکشاپ منعقد کرتی ہے جس میں عورتیں اور مرد، باہمی تعلقات کی توقعات کے بارے میں سچائی سے گفتگو کرتے ہیں۔ مرد اور عورتیں پہلے الگ الگ گروپوں میں ملتے ہیں اور جنسی تعلقات میں ان کے لیے جو ترجیحات اور خواہشات اہم ہیں ان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس کے بعد دونوں گروپ یکجا ہو جاتے ہیں اور باہمی اختلافات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔

a man speaking in a group of men while a woman speaks in a group of women nearby.
ہماری خواہش ہے کہ ہماری بیویاں جنسی طور پر پُرکشش ہوں، لیکن ہمیں یہ بات کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اس لیے ہم طوائفوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ وہ جانتی
ہم عورتوں کے معاملات کی ماہر ہیں۔ ہم چاہیں گی کہ مردوں کو عورتوں کے بارے میں کیا جاننا چاہیے، باہمی تعلقات میں ہم کیا امید کرتی ہیں، کس چیز سے خوف کھاتی ہیں اور حقیقی تجربہ کیا ہوتا ہے؟

جب عورتیں اور مرد الگ الگ گروپ میں بحث کریں تو ہر گروپ کے ایک فرد کو پیش کیے گئے خیالات کو چارٹ پیپر پر لکھ لینا چاہیے۔ جب ہر گروپ اپنے خیالات پیش کردے تو عورتیں، مردوں کے خیالات پر اور مرد، عورتوں کے خیالات پر تبصرہ کرسکتے ہیں۔ ملاوی اور زمبابوے میں منعقدہ ورکشاپس میں عورتوں اور مردوں نے جو باتیں کیں ان میں سے چند یہ ہیں:

مرد چاہتے ہیں کہ عورت کو پتا ہونا چاہیےکہ:

  • اچھا جنسی تعلق سب سے اہم چیز ہے۔ ایسی محبت جس میں دوسرے کا خیال رکھا جائے اور دوستانہ رویہ ہو، کم اہم ہوتی ہے۔
  • شوہر چاہتا ہے کہ جب وہ گھر آئے تو اچھے انداز میں اس کا خیرمقدم کیا جائے۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ جب وہ کوئی اچھا کام کرے تو اس کی تعریف کی جائے اور شکریہ ادا کیا جائے۔
  • مرد چاہتے ہیں کہ عورتیں خود بھی صاف ستھری رہیں اور گھر کو بھی صاف رکھیں۔
  • مرد چاہتے ہیں کہ وہ اپنی راز کی باتیں بیویوں سے پوشیدہ رکھیں۔ ان میں شوہر کی تنخواہ (آمدنی) اور دیگر ذاتی تعلقات شامل ہیں۔
  • مردوں کو جنسی کمزوری (نامردی) کا خوف ہوتا ہے اور اندیشہ ہوتا ہے کہ دوسرے مرد ’ان ک*اگر عورت کا کردار حاوی ہو یا وہ اپنی بات منوانے کی طاقت رکھتی ہو تو مردوں کو اپنے کمزور ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔


عورتیں چاہتی ہیں کہ مردوں کو علم ہو کہ:

  • ایسی دوستانہ محبت جس میں ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے، سب سے اہم ہے۔
  • عورتیں چاہتی ہیں کہ مرد گزر بسر کے لیے وسائل مہیا کرنے میں قابل اعتماد ہو۔
  • عورتیں ایسا شوہر چاہتی ہیں جو شام کو گھر آجائے اور ان سے ان چیزوں کے بارے میں بات کرے جو اس کے لیے اہم ہیں۔
  • عورتوں کو خوف ہوتا ہے کہ شوہر مار پیٹ کریں گے اور انھیں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ انھیں یہ خوف بھی ہوتا ہے مرد دوسری شادیاں کر لیں گے، دوسرے لوگوں کے سامنے انھیں بے عزت کریں گے یا ان پر پابندیاں لگادیں گے۔


بڑے گروپ کے مباحثے میں مردوں نے جانا کہ دیکھنے کے مقابلے میں چھونے سے عورتوں میں جنسی تحریک ہوتی ہے اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں جنسی تحریک پیدا ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے_ اس سے پہلے انھیں ان باتوں کا علم نہیں تھا۔

مردوں اور عورتوں دونوں نے جانا کہ اگر شوہر اور بیوی کی ذمے داریوں اور حقوق میں توازن ہو تو جنسی عمل زیادہ بہتر ہوسکتا ہے۔ دونوں نے اتفاق کیا کہ ایک دوسرے کی مکمل آسودگی کے لیے وہ آپس میں بات چیت کریں گے۔ لیکن اس کے ساتھ انھیں یہ خوف بھی تھا کہ کہیں وہ سماجی اور ثقافتی روایات اور توقعات کے خلاف تو کام نہیں کررہے یا ان پر ناجائز جنسی تعلقات کا الزام تو عائد نہیں کیا جائے گا۔ اس ورکشاپ سے ظاہر ہوا کہ عورتیں اس سلسلے میں اپنی دوستوں سے مدد حاصل کرلیتی ہیں، جبکہ مردوں کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں، عورتوں کے مقابلے میں وہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے اور اپنے مسائل کے بارے میں وہ کسی پر اعتماد نہیں کرسکتے۔

رفیقِ حیات سے جنس کے بارے میں بات کرنے کے لیے اعتماد حاصل کریں

لڑکیوں کو بچپن سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ انھیں جو دیا جائے وہ قبول کریں اور اگر وہ کچھ اور چاہتی ہیں تو اس کے بارے میں سوال نہ کریں_ خواہ وہ کھانے پینے کی چیز ہو، اسکول جانے کی بات ہو یا گھر کے روز مرہ کے کام ہوں جو انھیں کرنے کے لیے کہا جائے۔ لڑکیوں اور عورتوں کے بارے میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ انھیں جنسی باتوں کا علم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ چیز ان کے لیے اس وقت مزید مشکلات پیدا کرتی ہے جب وہ اپنے شوہر سے جنسی معاملے پر بات کرنا چاہیں۔ اگر ایک نوجوان عورت جنسی عمل کرنا چاہتی ہے تو اسے ایسا ظاہر کرنا پڑتا ہے جیسے یہ سب کچھ سوچے سمجھے بغیر اچانک ہوگیا۔یہ رویہ بات چیت (مذاکرات) میں اس کے لیے دشواری بن جاتا ہے۔

اپنی بات منوانے کے لیے مذاکرات کی مہارت سیکھنے اور اس کی مشق کرنے سے عورت کو زندگی کے تمام معاملات میں اپنی بات لوگوں تک اچھے طریقے سے پہنچانے اور دوسروں کو اس پر قائل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے، خاص طور پر جنسی تعلقات میں۔ ان طریقوں کو جاننے کے لیے صفحہ 100دیکھیں جن کے ذریعے عورتیں اس بات کا اظہار اچھے طریقے سے کرسکتی ہیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ اگلے صفحات میں چند تصورات دیے گئے ہیں جن کی مدد سے عورتیں اپنے جنسی رفیق سے خود اعتمادی کے ساتھ بات کرنے کے لیے خود کو تیار کرسکتی ہیں۔

سرگرمی اپنے ساتھی سے جنس کے بارے میں بات کرنے کی مشق

رول پلے کی اس سرگرمی سے عورتوں کو مدد ملے گی کہ وہ آسانی سے اپنی ضرورت یا خواہش کے بارے میں بتا سکیں۔ انھیں اپنی صحت اور لطف اندوز ہونے کے حق کے بارے میں مذاکرات کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ (رول پلے کی ہدایات کے لیے صفحہ 146تا 148دیکھیں)۔

  1. گروپ کو ایسی صورت حال کے بارے میں سوچنے کے لیے کہیں جس میں دو ساتھی اپنے تعلقات کے حوالے سے اپنی مختلف ضرورتوں یا توقعات کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں۔ مثلاً:
    • عورت چاہتی ہے کہ جنسی عمل طویل ہو، اور مرد اس کے علاوہ کچھ نہیں کرنا چاہتا جو اسے فطری محسوس ہوتا ہے۔
    • عورت چاہتی ہے کہ جنسی عمل کے نتیجہ میں اس کے بچہ پیدا ہو، لیکن مرد کنڈوم استعمال کرنا چاہتا ہے۔

    آپ صفحہ 96اور 97پر دی گئی سرگرمی میں بیان کی گئی کہانی بھی استعمال کرسکتی ہیں یا کوئی نئی کہانی بنا سکتی ہیں۔
  2. نیچے دی گئی صورت حال یا کہانیوں میں سے کسی ایک پر یا زیادہ پر گروپ رول پلے کریں۔
  3. a man and a woman in a role-playing conversation.
    جب میں کام سے گھر واپس آتا ہوں تو فوراً تمھارے ساتھ بستر پر جانا چاہتا ہوں۔
    تمھیں یاد ہے، پہلے ہم گھنٹوں ایک دوسرے کو پیار کیا کرتے تھے؟ مجھے وہ یاد آتا ہے۔

  4. رول پلے مکمل ہو جائیں تو آپ بحث کو آگے بڑھا سکتی ہیں کہ ہر صورت حال میں جوڑوں نے جنس کے بارے میں ایک دوسرے سے کس طرح بات کی۔ بحث کے دوران اس طرح کے چند سوالات کیے جاسکتے ہیں:
    • کیا رول پلے میں زندگی کی حقیقی صورت حال دکھائی گئی؟ کیا حقیقی زندگی میں میاں بیوی اس طرح بات (مذاکرات) کرسکتے ہیں؟
    • کون سی بات تھی جس کے بارے میں گفتگو کرنا مشکل لگا؟ کیوں؟
    • مرد کی گفتگو اور عورت کے بات کرنے کے طریقے میں کیا فرق تھا؟
    • عورت اور مرد جب بات (مذاکرات) کرتے ہیں تو صنفی کردار کس طرح اثر ڈالتا ہے؟
    • کیا صنف، عمر، ذات، نسلی تعلق یا معذوری سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ کیوں؟
  5. آخر میں سوال کریں کہ اس سرگرمی سے گروپ نے کیا سیکھا اور یہ کہ کیا کوئی چیز ایسی ہے جسے وہ اپنے ذاتی تعلقات میں تبدیل کرنا چاہیں گی۔

جنس کے بارے میں بات کرنے کے لیے عورتیں ایک دوسرے کا اعتماد بڑھاتی ہیں

خاندان کی بھرپور صحت کے لیے کام کرنے والی پاکستان کی سماجی تنظیم ’’رہنما‘‘ نے لاہور شہر میں ایک منصوبہ شروع کیا جس میں شادی شدہ عورتیں اپنے جنسی تجربات اور صنفی کردار کے بارے میں اظہار خیال کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ جنس کے بارے میں گفتگو (مذاکرات) کرنے کی ان کی، صلاحیت پر ان سے کیا اثر پڑسکتا ہے۔

جب منصوبے کے میزبانوں نے ان سے پوچھا کہ وہ اپنے شوہروں سے جنس کے بارے میں بات کیوں نہیں کرسکتیں، تو عورتوں نے جواب دیا کہ تہذیب کے خلاف ہونے اور خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے وہ اس بارےمیں بات نہیں کرسکتیں۔ اور یہ کہ ان کے پاس کہنے کوکچھ زیادہ ہوتا بھی نہیں ہے۔ عورتوں کو اس بارے میں بھی تشویش اور پریشانی تھی کہ جب وہ اپنے شوہر سے کنڈوم استعمال کرنے کا کہیں گی تو اس کا ردِعمل کیا ہوگا؟ انھیں خوف تھا کہ شوہر غصہ کرے گا یا یہ سوچے گا کہ بیوی کے دوسرے مردوں سے تعلقات ہیں یا ایسے طریقے استعمال کرے گا جس سے عورت کو گھر چلانے میں دشواری ہو۔

a man and a woman talking in bed.



تاہم عورتوں نے مردوں سے جنس کے بارے میں مذاکرات کے لیے مختلف باتیں کہنے اور دلیلیں دینے کے لیے آپس میں مشورے اور بات چیت جاری رکھی اور رول پلے کیے۔ اس کے باوجود اکثر عورتوں کے لیے یہ کام اب بھی ناممکن تھا۔ لیکن دو ماہ تک میٹنگوں میں شریک ہونے کے بعد انھیں اپنے جسموں کے بارے میں زیادہ معلومات تھیں اور اپنے شوہروں سے جنس کے بارے میں بات کرسکتی تھیں۔ ان میں اتنا اعتماد پیدا ہوگیا کہ اپنے شوہر سے دوستانہ انداز میں بات کرسکیں کہ جنسی عمل کب کرنا چاہیے یا کنڈوم استعمال کرنا چاہیے۔

ورکشاپ میں مشق کرنے سے پہلے زیادہ تر عورتیں یہ سمجھتی تھیں کہ شوہر کے ساتھ جنسی عمل میں شریک ہونا بیوی کا فرض ہے۔ یہ جاننے کے بعد کہ جنسی معاملات پر وہ اپنے شوہر سے کس حد تک بات کرسکتی ہیں، انھیں احساس ہوا کہ یہ تعلقات باہمی آسودگی اور احترام پر مبنی ہونا چاہئیں اور انھوں نے جانا کہ حقیقت میں ایسا ہوسکتا ہے۔

اس ورکشاپ کے بعد کئی خواتین نے بتایا کہ ان کے جنسی تعلقات ان کے اور شوہر دونوں کے لیے پہلے سے زیادہ آسودگی بخش ہیں، ان کی ازدواجی زندگی پہلے سے زیادہ خوشگوار ہے اور خاندان میں قربت کا رشتہ مضبوط ہوا ہے۔

سرگرمی خواہش، آمادگی اور ’نہیں‘: اپنی خواہشات اور حدود کو جانن

اس سرگرمی سے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ اپنی جنسی خواہشات اور حدود کے بارے میں سوچیں اور پھر گفتگو کریں، اس سرگرمی کے موضوعات کو جاننا جنسی تعلقات میں عورتوں اور لڑکیوں کی مذاکرات کرنے کی صلاحیت کو طاقتور بنانے کا اہم طریقہ ہے۔

یہ سرگرمی اس وقت زیادہ مفید ثابت ہوگی جب نوجوان عورتوں کے ایسے گروپ کے ساتھ کی جائے جو ایک دوسرے کو جانتی ہوں اور ایک دوسرے پر اعتماد کرتی ہوں۔ سرگرمی شروع کرنے سے پہلے گروپ سے وعدہ لیں کہ ’یہاں جو کچھ کہا جائے گا‘ وہ دوسروں کو نہیں بتایا جائے گا (گروپ کی شرائط پر اتفاق رائے کے لیے صفحہ 84 دیکھیں)۔

تیاری: گروپ کے ہر ممبر کو کاغذ کے تین چوکور ٹکڑے دیں: پہلے کاغذ پر مسکراتا چہرہ (خواہش) دوسرے کاغذ پر سنجیدہ چہرہ (آمادگی) اور تیسرے کاغذ پر ناراض چہرہ (انکار) کی تصویریں ہوں گی۔ ہر ممبر کو مٹھی بھر خشک دانے (چیاں، کھجور کی گٹھلیاں وغیرہ) بھی دیں۔

illustration of the above: 3 squares of paper with faces drawn on them.
خواہش
آمادگی
انکار
  1. بتائیں کہ ہر ایک کو سوچنا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے کس کے لیے آمادہ ہے اور کیا نہیں کرنا چاہتی۔ اس سرگرمی کے تعارف کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ گروپ سے کہیں کہ بلند آواز سے کھانے کی اس چیز کا نام لے جس کی خواہش ہے، جسے کھانے پر آمادہ ہے اور جو نہیں کھانا چاہتی (گروپ کو ہنسانے کے لیے چند مضحکہ خیز چیزوں کے نام لیے جاسکتے ہیں)۔
  2. تین سے چار افراد کے چھوٹے گروپ بنائیں۔ بتائیں کہ ہر ایک کو جنسی سرگرمیوں کے بارے میں سوچنا ہے، خواہ انھیں پہلے کا تجربہ ہو یا نہیں۔ وہ ایسی جنسی سرگرمیوں کے بارے میں سوچیں گی:
    • جن کی خواہش ہے، یا ان کے خیال میں لطف دیں گی۔
    • جن پر وہ آمادہ ہیں، اگر ان کے ساتھی کی دلچسپی ہو۔
    • وہ کبھی نہیں کریں گی۔ اگر ان کا ساتھی کہے تو انکار کر دیں گی۔
  3. اب ہر ایک ممبر سے کہیں کہ وہ چند منٹ کے لیے خود کام کرے۔ ہر عورت تینوں کاغذ اپنے سامنے رکھے اور مختلف جنسی سرگرمیوں کے بارے میں سوچے۔ ہر سرگرمی کے لیے وہ ہر کاغذ پر ایک دانہ رکھے گی جس سے وہ لطف اٹھائے گی، جس کے لیے آمادہ ہوگی، یا جس سے انکار کرے گی۔
  4. illustration of the above: 4 women working alone with beans and squares of paper.
  5. ہر ممبر سے کہیں کہ وہ اپنے چھوٹے گروپ کے لوگوں کواپنے ہر کاغذ کے بارے میں کچھ بتائے۔ وہ کوئی بھی بات بتا سکتی ہیں جسے بتانے میں سہولت ہو۔ ایک دوسرے کو اپنی بات بتانے کے لیے گروپ کو چند منٹ کا وقفہ دیں۔
  6. اب چھوٹے گروپوں سے کہیں کہ اس قسم کے سوالات پر آپس میں بات کریں:
    • جنسی تعلق کے بارے میں وہ کیا خواہش ہے جسے آپ کو اپنے آپ سے کہنے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔
    • آپ جو چاہتی ہیں، اسے کس طرح آسانی سے کہا جاسکتا ہے یا اسے کہنا کیسے آسان بنایا جائے؟
    *حدود بنانے میں کیا چیز آسانی پیدا کرے گی جس سے آپ کا ساتھی جان لے کہ آپ وہ نہیں کریں گی؟
    • ’’آمادگی‘‘ والی چیزوں کے بارے میں آپ کیا سوچتی ہیں؟ تعلقات میں آپ ’’خواہشات‘‘ اور ’’آمادگیوں‘‘ میں کیسے توازن پیدا کریں گی۔
  7. اب سب کو بڑے گروپ کی شکل میں جمع کریں اور ان کے سامنے اس طرح کے سوال رکھیں:
    • اپنی خواہشات اور حدود کے بارے میں زیادہ جاننے سے خود کو زیادہ صحت مند اور بااختیار فرد بننے میں آپ کو کیا مدد ملی؟
    • اپنی ساتھی سے خواہشات اور حدود کے بارے میں بات کرنا، صحت مند تعلقات بنانے میں کیا مدد کرے گا؟
    ورکشاپ ختم کرنے سے پہلے گروپ کو یاد دلائیں کہ انھوں نے یہاں کی گئی باتیں، باہر کسی کے سامنے نہیں کرنے کا عہد کیا ہے۔

’’اسٹیپنگ اسٹونز‘‘ کا طریقہ تعلقات میں دیرپا تبدیلیاں لارہا ہے

’’اسٹیپنگ اسٹونز‘‘ ایک تربیتی پروگرام ہے جس میں صحت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے مقامی آبادی (گائوں، محلہ، بستی) کی سطح پر ورکشاپ منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان میں ذاتی مسائل اور باہمی تعلقات کے مسائل پر بات کی جاتی ہے اور حل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ورکشاپ میں شرکت کرنے والوں کو صنف اور جنسیت سے متعلق سوالوں کے علاوہ یہ جاننے میں بھی مدد ملتی ہے کہ عقائد اور اقدار تعلقات پر کس طرح اثر ڈالتی ہیں۔ 10سے 12ہفتوں کے اس تربیتی پروگرام سے ہر عمر کی عورتوں اور مردوں کو وہ رویے اور توقعات تبدیل کرنے میں مدد ملتی ہے جو وہ انفرادی اور اجتماعی تعلقات میں اختیار کرتے ہیں اور دوسروں سے توقع رکھتے ہیں۔



پہلے اجلاس میں میزبان علاقے کے سب لوگوں کے اجتماع میں عورت اور مرد کے درمیان تعلقات پر کھلی بحث کرتے ہیں۔ شرکأ میں سے جو لوگ اس موضوع پر مزید گفتگو کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے ہم عمر افراد پر مشتمل 10سے 12لوگوںکے گروپس بنا لیتے ہیں۔ ہم عمر گروپ عمر رسیدہ عورتوں، جوان عورتوں، عمر رسیدہ مردوں اور جوان مردوں کے ہوسکتے ہیں۔ ہم عمر افراد کے گروپ میں ہونے کی وجہ سے اکثر لوگوں کو زیادہ سچائی سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر گروپ میں مخالف جنس کے لوگ یا مختلف عمروں کے لوگ شامل ہوں تو کھل کر بات کرنا مشکل بن جاتا ہے۔

a group of 12 women having a discussion.


ہم عمر افراد کے گروپ کئی اجلاس کرتے ہیں۔ تربیت یافتہ میزبان کی مدد سے گروپ کے لوگ ان مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہیں جو انھیں مخالف جنس سے تعلقات میں پیش آئیں۔ ان مشکلات کے ممکنہ اسباب پر بھی بات کی جاتی ہے۔ اس کے بعد تمام گروپوں کا بڑا اجلاس بلایا جاتا ہے جس میں ہم عمر افراد کا ہر گروپ، اپنے گروپ کے سب سے اہم خیالات (نکات) اور نتائج پیش کرتا ہے۔

یہ عمل دو تین مرتبہ دہرایا جاتا ہے، جس کے دوران ہم عمر افراد کا ہر گروپ ان معاملات کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ حاصل کر لیتا ہے جو ان کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ وہ ان معاملات کے بارے میںاپنے ساتھیوں اور دوسرے گروپ سے بات چیت کے طریقے بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ ہر بار جب سب گروپ جمع ہوتے ہیں تو وہ آپس میں مزید نئی معلومات اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ان بڑے اجلاسوں میں لوگوں کو دوسرے گروپوں کے لوگوں کے ایسے احساسات اور تجربات کے بارے میں نئی باتیں جاننے کا موقع ملتا ہے جن سے وہ پہلے واقف نہیں تھے۔ آخر میں علاقے کے سب لوگوں کو ایک بڑے اجلاس میں بلایا جاتا ہے جس میں ہم عمر افراد کا ہر گروپ اپنے تعلقات کے حوالے سے سب سے اہم مسئلہ پیش کرتا ہے تاکہ اس کا حل تلاش کیا جائے ۔ گروپ علاقے کے لوگوں سے درخواست کرتا ہے کہ مسئلہ حل کرنے میں ان کی مدد کریں۔

اس پورے عمل میں جو وقت لگتا ہے اور لوگوں کا جتنا خیال رکھا جاتاہے اس کے نتیجے میں اکثر گروپوں کو عورتوں اور مردوں کے باہمی برتائو میں دیرپا تبدیلیاں لانے کے لیے مقامی افراد کی بھرپور حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔

’’اسٹیپنگ اسٹونز‘‘ کو دنیا کے متعدد ملکوں میں استعمال کیا گیا ہے اور 100سے زیادہ ملکوں کے ایک ہزار سے زیادہ افراد اس منصوبے کے طریقے استعمال کرنے والے سہولت کاروں اور حامیوں کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔

2 women and 2 men speaking.
جب تک ہم نے شرکت نہیں کی تھی، ہمیں پتا نہیں تھا کہ ہمیں اپنی زندگی کے بہت سے ایسے مسائل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق ہے جو ہمارے لیے سب سے اہم ہیں۔
ہم نے نوجوانوں کی کونسل بنائی ہے اور کمیونٹی میٹنگوں میں شریک ہوتے ہیں۔
اب ہم اسکولوں میں جنسی اور تولیدی صحت کے بارے میں پڑھاتے ہیں۔
میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ جنسی تعلقات کے بارے میں کبھی کسی گروپ کے ساتھ بات کرنے پر تیار ہوں گا۔