Hesperian Health Guides
چھاتی سے دودھ پلانا
ہیسپرین ہیلتھ ویکی > نئی جہاں ڈاکٹر نہ ہو > باب نمبر 27: نوزائیدہ بچے اور انھیں چھاتی سے دودھ پلانا > چھاتی سے دودھ پلانا
پہلی مرتبہ ماں بننے والی عورت کو چھاتی سے دودھ پلانے میں مدد کی ضرورت ہوگی۔ تکیوں اور کمبلوں کی مدد سے سہارا دے کر اسے آرام سے اور سیدھا بیٹھنے میں مدد دیں۔ گھر کے افراد اور آنے والے مہمانوں سے کہیں کہ جب ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہو تو وہ اس سے نہ ملیں اور ماں اور بچے کو اکیلا چھوڑ دیں۔ کوئی تجربہ کار خاتون یا مڈوائف بچے کو دودھ پلانے میں مدد دینے کے لیے اس کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ تھوڑا وقت گزرنے اور مشق ہونے کے بعد ماں کے لیے بچے کو چھاتی سے دودھ پلانا آسان کام بن جاتا ہے۔
بچے کے لیے ماں کا دودھ ڈ بے یا کسی بھی دوسرے دودھ سے بہتر ہے۔
اگر دودھ پلاتے وقت ماں بچے کو صحیح طریقے سے گود میں لے اوربچہ صحیح طرح چھاتی چوسے تو نہ ماں کو درد ہوتا ہے اور نہ اس کے نپل پر ترخن پیدا ہوتی ہے۔ بچے کے پورے جسم کو ماں کی طرف کروٹ دینی چاہیے تاکہ دودھ پیتے وقت اس کی گردن مڑی ہوئی نہ ہو۔ اس وقت تک انتظار کریں جب تک بچہ چھاتی منھ میں لینے کے لیے اپنا منھ پوری طرح کھول لے۔ اب اسے چھاتی کے قریب لائیں اور نپل اور اس کے گرد گہرے حصے کو زیادہ سے زیادہ بچے کے منھ میں دیں۔
اندر تک ہے نچلے ہونٹ نے چھاتی
کو ڈھانپ لیا ہے پوری طرح کھلا ہوا منھ
بچے کو اپنے جسم
سے لگا کر گود میں لیں |
|
|
اس طرح نہیں۔ اس طرح کی پوزیشن کی وجہ |
فہرست
پہلا دودھ سونے کے پانی کی طرح ہے
پیدائش کے بعد ماں کی چھاتیوں سے نکلنے والا پہلا دودھ جسے کولسٹروم کہتے ہیں، کم مقدار میں آتا ہے لیکن نوزائیدہ بچے کے لیے یہ مقدار اس کی ضرورت کے مطابق ہوتی ہے۔ (نوزائیدہ بچے کا معدہ دودھ کے صرف چند چمچے برداشت کرسکتا ہے)۔ کولسٹروم کا رنگ ہلکی سی نیلاہٹ لیے ہوتا ہے، لیکن خواہ یہ کتنا ہی مختلف نظر آئے، نوزائیدہ بچے کے لیے یہ مکمل اور بہترین غذا ہے۔ اس دودھ میں جراثیم کو مارنے والے اجزا ہوتے ہیں۔ یہ ایسے اجزا ہیں جوماں کے جسم کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور بچے کو انفیکشن سے بچاتے ہیں۔ اس پہلے دودھ کو پھینکنا نہیں چاہیے: بچے کے لیے یہ کسی بھی دوا سے بڑھ کر ہے۔ پیدائش کے بعد پہلے دو دن تک بچے کو ماں کا دودھ پلانا بھی نہایت اہم ہے کیونکہ اس سے ماں کی چھاتیوں میں پختہ دودھ بننا شروع ہوتا ہے اور پیدائش کے تین دن بعد اور بعدکے دنوں میں یہ دودھ مسلسل بنتا رہتا ہے۔ بچہ جتنا زیادہ دودھ پئے گا، ماں کا جسم اتنا ہی زیادہ دودھ بنائے گا۔
کیا بچے کو پورا دودھ مل رہا ہے؟
کسی کو یہ کہنے کی اجازت نہ دیں کہ آپ کے جسم میں اپنے بچے کے لیے اس کی ضرورت بھر دودھ نہیں بن سکتا، خاص طورپر زچگی کے بعد ابتدائی چند دنوں میں جب آپ کا جسم دودھ بنانا شروع کر رہا ہوتا ہے۔
آس پاس کے لوگوں کے دباؤ اور اپنے شک و شبہہ کی وجہ سے (دادیاں، نانیاں، خالائیں یا نرسیں جو آپ کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں) مائیں بچے کو ڈبے کا دودھ پلانے لگتی ہیں یا یورچ یا کھانے کی کوئی اور چیز دینا شروع کردیتی ہیں۔ باہر کی یہ تمام چیزیں نہ صرف پیسے ضائع کرتی ہیں بلکہ بچے کو دستوں کی بیماری میں مبتلا کردیتی ہیں۔ دستوں کی وجہ سے بچے کا وزن کم ہوجاتا ہے اور وہ کمزور ہوجاتا ہے۔ بچے کو اوپر کی چیزیں دینے سے ماں کے جسم میں کم دودھ بنتا ہے، اس سے وہ اور زیادہ یقین کرنے لگتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو پیٹ بھر کر دودھ نہیں پلا سکتی۔ اگر آپ صحت کارکن ہیں تو آپ دوسروں کے کہنے اور ماں کے شک سے پیدا ہونے والے بیماریوں کے اس سنگین چکر کو اس طرح توڑ سکتی ہیں کہ انھیں یقین دلائیں کہ وہ بچے کو ضرورت بھر دودھ پلا سکتی ہیں اور ان کی چھاتیوں میں دودھ اسی وقت بنے گا جب وہ بچے کو زیادہ سے زیادہ دودھ پلائیں۔ بچے کو گود میں صحیح طرح لینے میں ان کی مدد کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں یہ موقع اور وقت بھی دیں کہ وہ خود سیکھیں اور جانیں کہ وہ کس طرح بچے کو اچھی طرح دودھ پلا سکتی ہیں۔ پیار اور نرمی سے بات کریں اور احتیاط اور صبر سے کام لیں۔
زیادہ دودھ پیدا کرنے کے لیے
- بچے کو زیادہ مرتبہ دودھ پلائیں
- پانی اور مشروبات زیادہ سے زیادہ پئیں اور زیادہ غذا کھائیں (آپ جتنا زیادہ کھائیں گی بچے کو اتنا زیادہ دودھ ملے گا)۔
- زیادہ سے زیادہ آرام کریں (اگر باپ اور خاندان کے دوسرے افراد گھر کے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹائیں تو ماں اپنے بچے کی بہتر دیکھ بھال کرسکتی ہے)۔
آپ جتنا زیادہ دودھ پلائیں گی، اتنا زیادہ دودھ بنے گا۔
پہلے ہفتے میں بعض بچوں کا وزن کم ہوجاتا ہے۔ یہ عام بات ہے۔ اس کے بعد بچے کے وزن میں کمی کا مطلب ہے کہ اسے پوری غذا نہیں مل رہی۔ اس طرح پہلے دن بچہ زیادہ پیشاب نہیں کرتا لیکن اس کے بعد وہ ہر چند گھنٹوں بعد پیشاب کرتا ہے۔ اگر پیدائش کے دو دن بعد بچہ بار بار پیشاب نہ کرے تو اس کا مطلب ہے اسے پوری طرح دودھ نہیں پلایا جا رہا۔ لیکن اگر بچے کو بار بار دودھ پلایا جا رہا ہو لیکن وہ پیشاب نہ کر رہا ہو اور نہ اس کا وزن بڑھ رہا ہو تو کیا ہوگا؟ اس صورت میں آپ کو ماں کے دودھ کی جگہ دوسرا دودھ دینا ہوگا۔ شکر ملا پانی یا چاول کا پانی نہ دیں۔ ڈبے کا دودھ اس وقت تک نہ دیں جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ آپ اس دودھ کی مقررہ مقدار دے سکتی ہیں (ڈبے کے دودھ میں زیادہ پانی ملانے سے بچے کو دستوں کی بیماری اور دوسرے امراض لاحق ہوسکتے ہیں)۔ بوتل استعمال نہ کریں۔ انھیں اچھی طرح صاف کرنا مشکل ہوتا ہے اس لیے یہ دستوں کی بیماری کے جراثیم پھیلاتی ہیں۔
اگر ماں کا انتقال ہوجائے یا وہ بچے سے الگ کردی گئی ہو یا اس کے جسم میں واقعی دودھ نہیں بن رہا ہو (ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے) تو بچے کو دوسرا دودھ دینا ہوگا۔ ایسی صورت میں کوئی اور عورت بچے کو اپنا دودھ پلا سکتی ہے۔ دوسری عورت کا دودھ پلانے سے پہلے اس کا ٹیسٹ کرا لینا چاہیے کہ اسے ایچ آئی وی نہیں ہے کیونکہ ایچ آئی وی کا مرض دودھ کے ذریعے بچے کو منتقل ہوجاتا ہے۔ دوسرا متبادل یہ ہے کہ بچے کو کسی مویشی (جانور) کا دودھ پلایا جائے۔
بچے کو پلانے کے لیے جانور کا دودھ بنانے کا طریقہ:
دو حصے گائے یا بکری کا دودھ
ایک حصہ پانی
ایک بڑا چمچہ شکر
|
||
یا |
یا |
جراثیم ختم کرنے کے لے دودھ اور پانی کے اس آمیزے کو تھوڑی دیر ابال لیں۔ پھر اسے ٹھنڈا کرکے بچے کو صاف پیالی یا چمچے سے پلائیں۔
حلق یا منھ میں سفید دھبے یا چھالے (تھریش)
دوا کو بچے کے منھ کے اندر لگانے کے لیے صاف کپڑے کا چھوٹا ٹکڑا استعمال کریں۔ |
بچے کی زبان پر یا منھ کے اندر سفید دھبے یا چھالے اور دودھ پینے کے دوران حساسیت منھ کے انفیکشن کی علامت ہوسکتی ہے جسے تھریش کہتے ہیں۔ یہ انفیکشن ماں کے نپل تک پھیل سکتا ہے جس سے چھاتیاں سرخی مائل ہوجاتی ہیں، ان میں کھجلی ہوتی ہے اور درد ہوتا ہے۔
نپل کو پہلے سِرکے اور پانی سے دھوئیں۔ اگر سرکہ نہ ملے تو ہر بار دودھ پلانے کے بعد نپل کو نرمی سے دھوئیں اور خشک کرلیں۔ اگر اس سے تھریش ختم نہ ہو تو تین دن تک دن میں دو مرتبہ نپل پر اودی دوا (جینشین وائلٹ) لگائیں۔ دن میں ایک مرتبہ بچے کے منھ اندر بھی یہ دوا لگائیں۔ (جہاں دوا لگے گی وہ حصہ اودا ہوجائے گا، لیکن اس سے پریشان نہ ہوں یہ محفوظ ہے)۔
اگر اودی دوا سے فائدہ نہ ہو تو بچے کو نسٹاٹِن دیں۔
اگر تھریش بار بار پیدا ہوتا رہے تو ممکن ہے کہ بچے کو کوئی اور مسئلہ ہو جوانفیکشن کے خلاف لڑنے کے لیے اس کے جسم کی طاقت کو کمزور کر رہا ہے۔ مثلاً جن بچوں کو ایچ آئی وی لاحق ہوجاتا ہے ان میں تھریش کی بیماری
بار بار حملہ کرتی ہے۔
چھاتی میں درد، سوجن، دودھ بند ہوجانا یا انفیکشن
بعض اوقات دودھ کی نالی بند ہوجاتی ہے۔ اس سے چھاتیاں سوج جاتی ہیں، سرخ ہوجاتی ہیں اور ان میں درد ہوتا ہے۔ اس سے انفیکشن بھی شروع ہوسکتا ہے۔
علامات
- کسی ایک چھاتی کا کوئی حصہ گرم، سرخ اور سخت ہوجانا
- چھاتی میں درد اور دودھ پلاتے وقت بھی تکلیف
اگر ماں کو بخار بھی ہو تو اس کا مطلب ہے دودھ کی نالی میں انفیکشن ہوگیا ہے۔
علاج
دودھ کی بند نالی کھولنے کے لیے یکساں دبائو کے ساتھ چھاتی پر آگے کی طرف مالش کریں۔ |
- آرام کریں۔ پانی اور مشروبات پئیں۔
- کم از کم ہر دو گھنٹے بعد بچے کو دودھ پلائیں۔ انفیکشن والی چھاتی سے
بچے کو دودھ پلانا محفوظ ہے اور یہ انفیکشن ختم کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
- یہ یقین کریں کہ دودھ پلاتے وقت آپ صحیح پوزیشن میں بیٹھی ہیں اور بچے کی پوزیشن بھی بالکل درست ہے۔ بچے کا پورا جسم ماں کی طرف ہونا چاہیے۔ بچے کا منھ پوری طرح کھلا ہو اور نپل بچے کے منھ میں اندر تک ہو۔
- جس چھاتی میں سوجن ہے پہلے اس سے دودھ پلائیں تاکہ بچہ وہ چھاتی خالی کر دے۔
- گرم پانی میں بھیگا کپڑا چھاتی پر رکھنے یا گرم پانی سے نہانے سے آرام ملتا ہے۔ دن میں کم از کم چار مرتبہ چھاتی کو 15 سے 20 منٹ تک گرم رکھیں، یا سوجن کم کرنے کے لیے چھاتی پر ٹھنڈا کپڑا یا گوبھی کے پتے رکھیں۔
اگر ماں کو بخار ہے تو دن میں چار مرتبہ 250 گرام ایریتھرو مائی سین دیں۔
ایچ آئی وی اور چھاتی سے دودھ پلانا
اب ایسی دوائیں موجود ہیں جو ایچ آئی وی کی مریض عورت کو حمل کے دوران تندرست رکھتی ہیں اور یہ وائرس بچے کو منتقل ہونے سے روکتی ہیں۔ عورتوں اور بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر حاملہ عورت کا ایچ آئی وی ٹیسٹ کیا جائے۔ اگر ماں کو ایچ آئی وی ہو تو اسے حمل کے دوران اور پیدائش کے بعد بچے کو دودھ پلانے کے پورے عرصے میں ایچ آئی وی کے علاج کی دوائیں دی جائیں۔
اگر ماں کو ایچ آئی وی ہو تو کیا بچے کو دودھ پلانا محفوظ ہے؟
ایچ آئی وی کی دوائیں، دودھ پلانے کے عرصے میں ماں سے بچے کو بیماری کے وائرس منتقل ہونے سے روکتی ہیں۔ ماں یا بچے کو اس وقت تک ہر روز دوا لینی ہوگی جب بچہ دودھ پینا چھوڑ دے۔ پہلے چھ ماہ (یا بچے کا پہلا دانت نکلنے تک) اگر بچے کو صرف ماں کا دودھ دیا جائے تو اس کی صحت محفوظ رہے گی۔ بچے کی صحت کے لیے پورچ یا دوسری غذائیں اچھی نہیں ہوتیں۔
بچے اور ماں کو دی گئی ایچ آئی وی کی دوائیں دونوں کو تندرست رکھیں گی۔
اگر ایچ آئی وی کی دوائیں دستیاب نہ ہوں تو خطرہ ہوتا ہے کہ دودھ کے ذریعے بیماری کا وائرس بچے کو منتقل ہوجائے گا۔ لیکن اس کے مقابلے میں ڈبے کا دودھ دینے سے بیماری کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ ایچ آئی وی کی مریض اکثر ماؤں کو نہ صاف پانی میسر ہوتاہے اور نہ جلانے کا ایندھن۔ ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ ڈبے کا دودھ خرید سکیں اور تیار کرکے بچے کو پلا سکیں۔ ان کے بچے پوری غذا نہ ملنے سے کمزور ہوکر دستوں کی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں اور مر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چھاتی کا دودھ محفوظ ہے۔ خواہ ماں یا بچہ دونوں میں سے کوئی بھی ایچ آئی وی کی دوائیں نہ لے رہا ہو
دنیا میں ہر جگہ ماں کا دودھ ہی بچے کے لیے بہترین غذا ہے
ماں کا دودھ
- سستا ہے۔ آپ کو ڈبے کا دودھ، بوتل یا کوئی اور چیز خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
- پیدائش کے بعد بچے کو ماں کا دودھ پلانے سے ماں کا خون بہنا جلد بند ہونے میں مدد ملتی ہے۔
- ماں کا دودھ پلانے سے پیدائش کے بعد کے مہینوں میں حمل نہیں ٹھہرتا۔
- زندگی میں آگے چل کر ماں کو کینسر لاحق ہونے اور ہڈیوں کی کمزوری سے بچاتا ہے۔
- بچے کو ہر بار تازہ، نیم گرم اور پینے کے لیے تیار دودھ ملتا ہے۔
- ماں کے دودھ میں وہ تمام غذائی اجزا ہوتے ہیں جن کی بچے کو ضرورت ہوتی ہے۔
- بچے کو دستوں کی بیماری، نمونیے اور دیگر کئی امراض سے بچاتا ہے۔
- آگے کی زندگی میں بچے کو ذیابیطس، الرجی اور کینسر جیسے امراض سے طویل مدت تحفظ دیتا ہے۔
- ماں کا دودھ پینے والا بچہ زیادہ وقت ماں کی آغوش میں اس کے جسم کی گرمی محسوس کرتے گزارتا ہے اور محفوظ رہتا ہے۔
- ماں اور بچے کا رشتہ مضبوط کرتا ہے۔