Hesperian Health Guides
زچگی کو محفوظ بنانے کےلیے علاقے کے لوگوں کی تجاویز
ہیسپرین ہیلتھ ویکی > عورتوں کی صحت کا تحفظ عملی اقدامات کی کتاب > باب نمبر ۸: صحت مند زچگی اور محفوظ ولادتیں > زچگی کو محفوظ بنانے کےلیے علاقے کے لوگوں کی تجاویز
ایک ہنگامی صحت کمیٹی تشکیل دیں۔ کمیٹی مڈوائفوں، نرسوں، ڈاکٹروں، شوہروں، حاملہ عورتوں، اساتذہ اور کاروباری مالکان پر مشتمل ہوسکتی ہے جو باقاعدگی سے اجلاس منعقد کرکے اس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ برادری کی حاملہ عورتوں کے لیے سہولتیں دستیاب ہیں، اور کافی ہیں۔
ہنگامی حالات کے لیے گاڑی کا انتظام کریں۔ جن ہمسایوں یا کاروباری مالکان کے پاس کاریں، ٹرک اور دوسری گاڑیاں ہیں وہ باری باری خواتین کو اسپتال تک نقل و حمل کی سہولت مہیا کریں۔ |
ایک ہنگامی قرض فنڈ قائم کریں۔ ہر کنبہ کچھ رقم فراہم کرے تاکہ ہنگامی حالات کے لیے رقم ہمیشہ دستیاب ہو۔ ہنگامی صحت کمیٹی فیصلہ کرے کہ رقم کیسے استعمال ہوگی: طبی نگہداشت ، ایندھن، گاڑی یا دیگر چیزوں کےلیے۔ کمیٹی یہ بھی فیصلہ کرے گی کہ رقم فنڈ میں واپس کب اور کیسے کی جائے گی۔ |
محفوظ مامتا مکانات۔ اگر مقامی آبادی اسپتال سے بہت دور ہے یا سڑک بعض اوقات خراب رہتی ہے تو عورتیں حمل کے آخری ہفتوں کے دوران اس صورت میں زیادہ محفوظ ہوں گی کہ انہیں اسپتال کےقریب قیام کے لیے کوئی جگہ دستیاب ہو۔ اگر کئی مقامی آبادیاں مل جل کر کام کریں اور سرکاری محکمۂ صحت سے مدد لے سکیں تو ہوسکتا ہے کہ شہر میں اسپتال کے نزدیک چھوٹا گھر یا کمرہ کرائے پر لیا جاسکے۔ اس صورت میں حاملہ عورتیں ہنگامی حالت میں جلد اسپتال پہنچ سکتی ہیں۔ | |
محفوظ خون کے عطیات۔ بھارت میں ایک قبائلی سردار کی ایک رشتے دار خاتون خون نہ ملنےکی وجہ سے فوت ہوگئی ۔ قریب ترین اسپتال کےپاس خون موجود نہیں تھا۔ چنانچہ اس شخص نے علاقائی رہنماؤں کو ترغیب دی کہ آس پڑوس کے دیہات میں خون کے عطیات دینے اور عطیے کی سالانہ مہمیں منظم کریں۔ رہنماؤں نے مقامی نوجوانوں سے ان کوششوں کی قیادت کرنے کو کہا۔ تمام خون کی اسکریننگ کی جاتی ہے تاکہ انفیکشن کا خطرہ نہ ہو۔ چنانچہ ہر ایک کو پتہ ہوتا ہے کہ خون محفوظ ہے۔ اس طرح یہ برادریاں ان خواتین کی زندگی بچانے میں مدد دے رہی ہیں جو زچگی کے دوران شدید جریان خون کا شکار ہوتی ہیں۔ پچھلے پندرہ برس سے نچلی سطح کےاس کام کی وجہ سے اسپتال کے پاس ہنگامی حالات کے لیے ہمیشہ خون موجود ہوتا ہے۔ |
طبی سامان کی کِٹ۔ اگر مقامی آبادی میں سب کو معلوم ہے کہ زچگی کے ہنگامی حالات سے کیونکر نمٹنا ہے تو برادری کو کچھ بنیادی طبی سامان خرید کر محفوظ جگہ رکھنا چاہیے۔ مفید سامان میں تھرمامیٹر، فشار خون (بلڈپریشر) معلوم کرنے کا آلہ، انفیکشن کےعلاج کے لیے جراثیم کش دوائیں، تشنج کی دوا اور زچگی کے بعد شدید جریان خون کی دوائیں جیسے اوکسی ٹوسن اور مائسوپروسٹول شامل ہیں۔ ان دواؤں کے بارے میں مزید جاننے کے لیے دیکھیں کتاب،’آسان مڈوائفری‘ یا ’جہاں عورتوں کےلیے ڈاکٹر نہ ہو‘۔ |
تنزانیہ میں ہنگامی نقل وحمل تک رسائی ، ایک مرد کا عزم
تنزانیہ کے ایک گاؤں میں ٹیریسیا نامی ۱۴سالہ لڑکی حاملہ تھی۔ وہ ابھی تک پوری طرح بالغ عورت نہیں بنی تھی اور اتنی کمسنی میں ماں بننے کا نہیں سوچا تھا۔ صحت مرکز کی نرسوں کو علم تھا کہ زچگی اس کے اور بچے کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے کیونکہ اس کی کولہے کی ہڈی (پیڑو) غالباً اتنی چھوٹی تھی کہ بچہ اس میں نہیں سما سکتا تھا۔ انہوں نے لڑکی کے کنبے کو بتایا کہ اسے علاقائی اسپتال میں زچگی کرانی چاہیے تاکہ آپریشن کی ضرورت پڑے تو پریشانی نہ ہو۔ چنانچہ لڑکی کے اہل خانہ نے ایمبولنس کے انتظام کے لیے رقم بچائی۔ لیکن جب لڑکی کو دردزہ شروع ہوا تو پٹرول کی قیمت بڑھ چکی تھی اور کنبے کے پاس اسپتال تک سفر کے لیے کافی رقم نہیں تھی۔ صحت مرکز کے افسر نے اسے ایمبولنس میں سوار کرنے سے انکار کردیا حالا نکہ اسےمعلوم تھا کہ اس کی زندگی خطرے میں ہے۔ اس نے اسپتال جانے کے لیے انتظار کرنے پر لڑکی کے خاندان کو سخت ملامت کی اور کہا ’اگر یہ مرگئی تو تم لوگ ذمے دار ہوگے۔‘ گاؤں کے منشی عبداللہ صدیقی عزیز نے اس مسئلے کے بارے میں سنا تو اپنی سائیکل بیچ کر ایمبولنس کے لیے پٹرول خریدنے کا بندو بست کیا اور لڑکی اور اس کے کنبے کے ہمراہ اسپتال گئے۔ جب وہ اسپتال پہنچے تو ٹیریسیا کا سیزیرین سیکشن ہوا لیکن بچہ مرچکا تھا۔ ٹیریسیا زچگی سے سنبھل نہ سکی اور چند ہفتوں بعد مرگئی۔
کئی ماہ بعد ’وقارِ نسواں ‘ نامی ایک انجمن کے ارکان نے گاؤں کا دورہ کیا اور محفوظ مامتا کے بارے میں مقامی افسران سے بات چیت کی۔ عبداللہ نے کھل کر بات کرتے ہوئے مقامی افسر صحت پر تنقیدکی کہ وہ ایمبولنس کے لیے ضرورت مند افراد سے رقم وصول کیے جارہا ہے۔ ’وقارِ نسواں‘ نے عبداللہ کو ضلعی حکام کے ساتھ ایک اجلاس میں مدعو کیا جہاں عبداللہ نے بتایا کہ کیسے اس افسر نے ٹیریسیا کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس وجہ سے صحت مرکز کے انچارج افسر کا تبادلہ کردیا گیا۔ عبداللہ نے کہا ’نئے افسر نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہنگامی حالات میں حاملہ عورتوں اور چھوٹےبچوں کے لیے ایمبولنس مفت ہو۔ دیہات کے لوگ خوش ہیں اور بہت سے لوگ میرا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں کہ میں نے کھل کر بات کی۔‘
تبدیلی اس وقت آتی ہے جب لوگ منظم ہوں
جب سے عبداللہ نے آگے بڑھ کر اپنا موقف بیان کیا ہےقومی سطح ُپر محفوظ مامتا کو فروغ دینے کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے۔ تنزانیہ کی موجودہ پالیسی نیشنل روڈ میپ اسٹریٹجک پلان میں نصف صحت مراکز پر لازم ہے کہ ۲ ۰۱ ۵ء تک ہنگامی زچگی اور نوزائیدہ بچوں کے لیے جامع خدمات فراہم کریں۔ اگرچہ یہ قانونی پیش رفت خوش آئند ہے تاہم عملی تبدیلیاں سست رفتاری سے آرہی ہیں۔ تنزانیہ میں محفوظ مامتا کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک صحت کے اداروں میں عورتوں کو طبی مدد حاصل کرنے کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے اور انہیں طبی سامان اور دواؤں کی کمی کا مسلسل سامنا رہتا ہے۔ یہ قوانین صحیح سمت میں اچھا قدم ہیں لیکن اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو نئے قواعد پر عملدرآمد کے لیے سیاسی دباؤ قائم رکھنا چاہیے۔