Hesperian Health Guides

حاملہ خواتین کے لیے نگہداشت تک رسائی بہتر بنائیں

اس باب میں:

حاملہ خواتین کو نگہداشت کی سہولتیں بہم پہنچانے میں بہت سی پہلو آجاتے ہیں۔ اس میں یہ جاننا بھی شامل ہے کہ صحت کی سہولتیں کون فراہم کرتا ہے اور ہنگامی حالات میں قریب ترین اسپتال کون سا ہے۔ اس میں یہ پہلو بھی شامل ہے کہ عورتوں کو باقاعدگی سے قبل از ولادت معائنے کرانے کے لیے منصوبہ بندی میں مدد دی جائے اور انہیں یہ معلوم ہو کہ اگر ضرورت پڑے تو وہ اسپتال تک کیسے پہنچیں گی۔ اس عمل میں مناسب نگہداشت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو پہچاننا اور انہیں دور کرنا بھی شامل ہے۔

زچگی کا منصوبہ

حاملہ عورت کو اس بارے میں اپنے فیصلے خود کرنے کا اہل ہونا چاہیے کہ ولادت کہاں اور کب ہوگی لیکن اسے اپنے کنبے اور برادری کی مدد کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور صحت کارکنوں کا تعاون بھی چاہیے ہوتا ہے جو زچگی میں مدد کریں۔بہت سے کنبوں میں زچگی کا منصوبہ بنانے میں مردوں، ساس اور خاندان کے دیگر بزرگوں کو شامل کرنا خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ یہی لوگ قریب موجود ہوتے ہیں، مدد کرسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ خاندان کے مالی وسائل یا گاڑی بھی ان کے قبضے میں ہوں۔

ذیل میں کچھ سوالات دیے گئے ہیں جو عورت اور اس کے گھر والوں کو زچگی کا منصوبہ بنانے میں مدد دے سکتے ہیں:

  • زچگی کہاں ہوگی؟ کیا عورت کو فیس ادا کرنی ہوگی؟ کتنی؟کون ادا کرے گا؟
  • کیا سامان درکار ہوگا اور کون فراہم کرے گا؟
  • وہ وہاں کیسے پہنچے گی؟ کیا عورت کو گاڑی کی ضرورت ہے؟ اس پر کیا خرچ آئے گا اور کون ادا کرے گا؟
  • زچگی اور ولادت کے بعد آرام کے دوران دوسرے بچوں، اس کی فصلوں اور جانوروں کا خیال کون رکھے گا؟



3 female health workers talking in a group.
میں ہر عورت کو یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہوں کہ وہ کیسے زچگی چاہتی ہے اور جب بھی معائنے کے لیے جاتی ہوں اس بارے میں اس سے بات کرتی ہوں۔
میں عورتوں اور ان کے گھر والوں کو تیار کرنے کی کوشش کرتی ہوں کہ جب درد زہ شروع ہوتو ہر چیز تیار ہو۔
میں سمجھتی ہوں کہ اگر عورت نے اپنا منصوبہ خود تیار کیا ہو اور اسے معلوم ہو کہ کس چیز کی توقع ہے تو زچگی میں کم مسائل ہوتے ہیں۔

ہنگامی حالات کے لیے تیاری کریں

حمل یا زچگی کے دوران کسی بھی عورت کو ہنگامی حالات پیش آسکتے ہیں۔ ہنگامی صورت میں عورت کو دو گھنٹے کے اندر طبی مدد اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہنگامی حالت کے لیے منصوبہ بندی کا مطلب ہے فوری کارروائی کرنا، مدد حاصل کرنا اور عورت اور بچے کی جان بچانا۔ حمل کے آخری ہفتوں کے دوران، اگر اسپتال اتنی دور ہو کہ دو گھنٹے میں نہ پہنچا جاسکے تو عورت کسی ایسے دوست یا خاندان کے فرد کے ساتھ قیام کرسکتی ہے جو اسپتال کے قریب رہتا ہو۔

تاخیرکی چار قسمیں

Sحمل یا زچگی کے دوران بعض مسائل بہت جلد بہت خطرناک بن سکتے ہیں۔ مدد حاصل کرنے میں عموماً چار قسموں کی تاخیر خطرے کو سنگین تر بنا سکتی ہے۔ عورت کو مرنے سے بچانے کے لیے یہ تاخیریں کم سے کم کی جانی چاہئیں:

  • خطرے کو بھانپنے میں تاخیر۔ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو ولادت کے بارے میں اور زچگی کے دوران خطرے کی علامات کے بارے میں زیادہ معلومات نہ ہوں۔ ان کی سمجھ میں نہ آئے کہ کچھ گڑبڑ ہے اس لیے وہ مدد حاصل کرنے میں تیزی نہ دکھائیں۔ خطرے کی علامات کے بارے میں جاننے کے لیے"خطرے کی علامات کو جانیں"دیکھیں۔
  • مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کرنے میں تاخیر۔ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ کچھ گڑبڑ ہے لیکن وہ مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کرنے میں دیر کریں۔ بہت سےلوگ ہنگامی حالات کے لیے تیارنہیںہوتے۔ ممکن ہے ان کے پاس گاڑی یا ڈاکٹر یا اسپتال کی فیس کے لیے رقم نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شوہر گھر پر نہ ہو اور عورت اس کی اجازت کے بغیر اسپتال نہ جاسکتی ہو۔
  • اسپتال پہنچنے میں تاخیر۔ ہوسکتا ہے اسپتال بہت دور ہو یا کسی اور وجہ (مثلاً سواری ملنے میں دیر، راستے میں ٹریفک جام، یا کسی سرکاری افسر کی حفاظت کے لیے یا جلوس کے لیے ٹریفک روک دینے) سے پہنچنے میں دیر ہوجائے۔
  • اسپتال میں نگہداشت کے حصول میں تاخیر۔ ہوسکتا ہے کہ اسپتال میں وہ سامان یا تربیت یافتہ عملہ نہ ہو جو عورتوں کی جان بچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ابلاغ کے مسائل بھی ہوسکتے ہیں خصوصاً اس وقت جب نرسیں اور ڈاکٹر، عورت کی زبان نہ سمجھتےہوں۔ اسپتالوں کے جو ملازمین خواتین کا احترام نہیں کرتے وہ عموماً انہیں علاج فراہم کرنے میں بہت دیر کرتے ہیں۔


a woman being carried to a pickup truck for transport from a village to the hospital.

چاروں قسم کی تاخیر کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان سے بچاؤ کے لیے ’لیکن کیوں؟‘ کھیل جیسی سرگرمی استعمال کریں۔ جب آپ پوچھتی ہیں ’’لیکن لوگ خطرے کو کیوں نہیں بھانپتے؟‘‘ اور وہ جواب دیتے ہیں ’’کیونکہ انہیں خطرے کی علامات کا علم نہیں ہوتا ‘‘ تو آپ بنیادی اسباب کو سامنے لانا شروع کردیتی ہیںاور آپ کی سمجھ میں آنے لگتا ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے لوگوں کو کیسے منظم کیا جائے۔

زچگی سے پہلے اور ہنگامی دیکھ بھال کی راہ میں حائل رکاوٹیں

جب عورتوں کوصحت کی نگہداشت اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے تو انہیں کیوں نہیں ملتا؟ خواتین کو زچگی سے پہلے مناسب نگہداشت نہ ملنے، ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی نہ کیے جانے اور زندگی خطرے میں ہونے کے وقت تاخیر ہونے کی بہت سی وجوہ ہیں۔ پھر کبھی نہیں!، خواہ مخواہ کی موت تبدیلی کا نعرہ کیسے بن گئی اور وانیا کی غیر محفوظ زچگیاں کے عنوانات کے تحت دی گئی کہانیاں عمومی وجوہات کی مثالیں ہیں۔ ان کہانیوں میں دونوں خواتین قریب ترین کلینک، صحت مرکز یا اسپتال جانے سے ڈر رہی تھیں۔ انہیں محسوس ہوتا تھا کہ ان جگہوں پر ان کا خیر مقدم نہیں کیا جاتا اور انہیں صحت کارکنوں پر اعتماد نہیں تھا کہ وہ ان سے مہربانی اور احترام کا سلوک کریں گے۔

اگر آپ کی بستی کی عورتیں صحت مرکز یا اسپتال جانے پر آمادہ نہیں ہوتیں یا ڈرتی ہیں تو معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ایسا کیوں ہے۔ جب آپ کو وجوہات پتہ چل جائیں گی تو آپ علاقائی رہنماؤں اور صحت مرکز کے لوگوں سے مل کر تبدیلی لانے اور بستی کے لوگوں کا اعتماد بڑھانے کے لیے کام کرسکتی ہیں۔

حاملہ عورتوں کو ان کی ضرورت کے مطابق نگہداشت کی سہولتیں مہیا کرنے میں درپیش رکاوٹوں کا زیادہ گہرائی سے جائزہ لینے کا ایک اچھا طریقہ ڈرامے یا ناٹک ہیں۔ یہاں ایسی صورتِ حال کی کچھ مثالیں دی جارہی ہیں جو حاملہ خواتین کے نگہداشت کی سہولتیں حاصل نہ کرنے کے بارے میں تھیٹر اور ڈرامے تخلیق کرنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں۔ (بہتر ہے کہ یہ منظر نامے پہلے سے تیار کرلیے جائیں)۔ ڈرا موں کے بارے میں مزید معلومات کے لیے دیکھیں ’ صنفی تشدد پر بحث کےلیے ڈراما ‘ اور ڈرامے سے تدریس ۔

یک پندرہ سالہ لڑکی کو پتہ چلتا ہے کہ وہ حاملہ ہے۔ وہ خوفزدہ ہے کہ جب اس کے والدین کو پتہ چلے گا تو کیا ہوگا۔ صحت مرکز کی نرس بہت مذہبی ہے اور جب لڑکیاں خاندانی منصو بہ بندی کےلیے صحت مرکز آتی ہیں تو وہ ان کے والدین سے بات کرتی ہے۔

ایک عورت حاملہ ہے۔ اس کے پہلے ہی پانچ بچے ہیں۔ شوہر کسی اور ملک کمانے کے لیے گیا ہوا ہے کیونکہ ملک میں ملازمت نہیں ملی۔ وہ ابھی تک رقم گھر نہیں بھیج سکا اور بیوی کو بچوں کے کھانے کا انتظام کرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔ اسے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کی پیدائش میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی اس لیے اسے توقع ہے کہ اس بچے کی پیدائش میں بھی معاملات ٹھیک رہیں گے۔

وانیا کی غیر محفوظ زچگیاں میں دی گئی معلومات کو استعمال کرکے بھی آپ خاکہ یا کھیل تیار کرسکتی ہیں۔

سرگرمی ڈراما، حاملہ عورتوں کو نگہداشت کی سہولت کیوں نہیں ملتی

  1. ۱۔ شرکأ کو تقریباً پانچ پانچ افراد کے کئی چھوٹے گروپوں میں تقسیم کردیں اور ہر گروپ کو پانچ منٹ کا ڈراما تیار کرنے کے لیے پندرہ بیس منٹ دیں۔ ہر گروپ دوسرے شرکأ کے لیے ڈراما پیش کرے گا۔ ہر ایک کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ کوئی نہ کوئی کردار ادا کرے۔

  2. ۲۔ گروپوں کو اپنے خاکے تیار کرنے میں مدد دینے کے لیے آپ ان سے اس قسم کے سوالات پوچھ سکتی ہیں:
    •      صحت مرکز میں عورت سے کیسا سلوک کیا جائے گا؟ کیا اس کے ساتھ دوسروں سے مختلف سلوک ہوگا؟ غیر شادی شدہ عورتوں سے کیسا برتاؤ کیا جاتا ہے؟
    •      صحت کارکن سے ملاقات کے لیے اسے کتنا انتظار کرنا پڑسکتا ہے؟ صحت مرکز کن اوقات میں کھلا رہتا ہے؟
    •      خدمات کا خرچ کیا ہے؟ کیا ایک جیسی سہولتوں کے لیے ہر ایک کو ایک جیسی رقم ادا کرنا پڑتی ہے؟ کیا عملہ رشوت یا اضافی فیس مانگتاہے؟
    •      صحت مرکز کیسا معلوم ہوتا ہے؟ کیا وہاں ضروری سازوسامان ہے؟
    •      زچگی سےپہلے، بعد اور زچگی کے دوران حاملہ خواتین نگہداشت کے لیے کس کو ترجیح دیتی ہیں؟ وہ اس فرد یا ان لوگوں کو کیوں ترجیح دیتی ہیں؟
  3. ۳۔ ہر گروپ سے اس کا بنایا ہوا خاکہ پیش کروائیں۔
  4. ۴۔ جب تمام اداکار اپنے کردار ادا کرچکے ہوں تو بحث کریں کہ وہ کیا رکاوٹیں ہیں جو عورتوں کو ضرورت کے مطابق نگہداشت کی سہولتیں حاصل کرنے کی راہ میں حائل ہیں۔
  5. ۵۔ سرگرمی کا اختتام ’سر، دل اور ہاتھ ‘ پر کریں۔ اس سے لوگوں کو اس بات پر غوروفکر کرنے میں مدد ملے گی کہ انہوں نے خیالات کا جائزہ لینے (سر)، احساسات پر نظر ڈالنے (دل) اور اس بارے میں کچھ کرنے (ہاتھ) کے حوالے سے کیا سیکھا ہے۔ اس سرگرمی میں آپ چاہیں گی کہ شرکأ اسپتال یا صحت مرکز میں ان تبدیلیوں کا تعین کریں جو تمام حاملہ خواتین کے لیے ضرورت کے مطابق نگہداشت کی سہولتیں کا حصول آسان بنادیں۔

a woman speaking.
ہم نے ایک غیر رسمی سروے کیا اور خواتین سے صحت مرکز میں ان کے تجربات کے بارے میں دریافت کیا۔ ہم نے ان کی کہانیاں لکھ لیں اور ایک بڑے اجلاس میں دوسروں کو یہ کہانیاں سنائیں۔ ہم نے خیال رکھا کہ عورتوں کے اصلی نام استعمال نہ کیے جائیں۔ خواتین کی زبان سے اس بارے میں سننا بہت اہم تجربہ تھا کہ وہ نگہداشت کی سہولتیں حاصل کرنے کے لیے وہاں جانا کیوں پسند نہیں کرتیں۔

صحت کے مسائل جن کے لیے اضافی دیکھ بھال کی ضرورت ہے

بعض خواتین کو ہمیشہ کسی طبی مرکز یا اسپتال میں زچگی کرانی چاہیے، چاہے وہ حمل کے دوران باقاعدگی سے معائنے کراتی رہی ہوں اور خطرے کی کوئی علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں۔ ان میں وہ خواتین شامل ہیں جو:

  • سترہ سال سے کم یا پینتیس سال سے زائد عمر کی ہیں۔
  • پانچ سے زائد بچوں کی ماں ہیں۔
  • بیمار ہیں یا انیمیا (آئرن کی کمی کے باعث کمزور خون) کا شکار ہوسکتی ہیں کیونکہ انہیں کافی مقدار میں صحت بخش غذا نہیں ملی۔
  • ذیابیطس (خون میں بہت زیادہ شکر) میں مبتلا ہیں ۔
  • پچھلے حمل یا زچگی میں مسائل کا شکار رہ چکی ہیں، جیسے بہت زیادہ خون بہنا، بلند فشار خون (بلڈ پریشر) یا بہت طویل لیبر یا زچگی کے دوران رکاوٹ۔
  • کوئی پچھلی زچگی سیزیرین سیکشن سے ہوئی ہے۔

ایڈز وائرس میں مبتلا عورت کے ہاں اسپتال میں ایسی ولادت ہوسکتی ہے جو اس کے بچے کے لیے محفوظ ہو۔

آپریشن سے پیدائش (سیزیرین سیکشن، سی سیکشن)

بیشتر خواتین وجائنا کے راستے فطری انداز میں بچہ جن سکتی ہیں۔ لیکن بعض حالات میں یہ عمل عورت یا اس کے بچے کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے جیسے اس وقت جب بچہ مشکل پیدائشی پوزیشن میں ہو اور وجائنا سے گزر نہ سکتا ہو یا جب عورت کے خون بہہ رہا ہو، اسے اکلمپسیا یا شدید انفیکشن ہو، یا ختنے کے بعد عورت کا فرج بہت چھوٹا کردیا گیا ہو۔ جب اس طرح کی پیچیدگیوں کی بنا پر عورت یا بچے کے لیے معمول کی لیبر اور پیدائش خطرناک ہوجائے تو عورت کے پیٹ میں چیرا لگایا جاتا ہے تاکہ بچہ پیدا ہوسکے۔


بعض اوقات عورت اور بچے کی زندگی بچانے کے لیے سیزیرین سیکشن ضروری ہوجاتا ہے۔ لیکن اکثر یہ آپریشن اس لیے بھی کردیا جاتا ہے کہ عورت کے لیے بے شک آسان نہ ہو لیکن ڈاکٹر یا اسپتال کے لیے یہ عمل آسان ہوتا ہے اور پورا معاملہ ڈاکٹر کے قابو میں ہوتا ہے۔

a woman speaking.

ہمارے محفوظ مامتا گروپ نے یہ سیکھا کہ سیزیرین سیکشن کے ذریعے بچے پیدا کرانے سے ماں اور بچے کے لیے صحت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ جب ضرورت ہو تو اس کی مدد سے ان کی زندگی بچائی جاسکتی ہے لیکن بصورت دیگر ماں اور بچے کے لیے وجائنا کے ذریعے ولادت زیادہ محفوظ طریقہ ہے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ سیزیرین سیکشن کی قابل قبول شرح 13فیصد ہے۔ ہم نے ہر ڈاکٹر اور اسپتال کی شرح کا حساب رکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر یہ معلومات عام کردیں۔ ماضی میں آدھی خواتین کی زچگیاں سرجری سے ہوتی تھیں! ہمارے اقدام کے بعد ایک چوتھائی سے بھی کم عورتوں کےہاں سرجری کے ذریعے زچگی ہوتی ہے، اور ماؤں اور بچوں میں پیچیدگیاں بھی کم ہوگئی ہیں۔

فسٹیولا: زخم جس سے بچاؤ ممکن ہے

a woman with large, dark stains on her clothing.
ناسور سے پیشاب یا پاخانہ خارج ہونے لگتا ہے۔

بعض عورتیں جنہیں طویل اور مشکل لیبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے بعد میں ایک گہرے زخم کا شکار ہوجاتی ہیں جسے آبسٹیٹریک فسٹیولا(obstetric fistula) کہتے ہیں۔ یہ ناسور عورت کی وجائنا میں ایک سوراخ کی شکل میں ہوتا ہے جو بچے کے سر کے دیر تک ایک جگہ دباؤ ڈالتے رہنے کی وجہ سے بن جاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد عورت کے جسم سے وجائنا کے راستے پیشاب یا پاخانہ خارج ہوتا ہے۔ اس اخراج کو روکنے کے لیے وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ فسٹیولا کی شکار عورتیں عموماً گھر تک محدود ہوتی ہیں۔ اکثر ان کا خاندان انہیں چھوڑ دیتا ہے اور برادری میں بدنامی کا شکار ہوتی ہیں۔

خوش قسمتی سے آپریشن سے فسٹیولا کا علاج ہوسکتا ہے۔ اس کی روک تھام بھی ہوسکتی ہے۔ جہاں تربیت یافتہ عملہ حاملہ عورتوں کا باقاعدہ معائنہ کرتا رہتا ہے اور لیبر بہت طویل ہونے کی صورت میں موزوں سامان والے کلینک یا اسپتال میں زچگی ہوتی ہے وہاں فسٹیولا شاذونادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ فسٹیولا زیادہ تر ان جگہوں پر ہوتے ہیں جہاں لڑکیوں کی شادی بہت کمسنی میں ہوجاتی ہے اور پوری طرح جوان ہونے سے پہلے وہ حاملہ ہوجاتی ہیں اور ان جگہوں پر بھی جہاں ختنہ عام ہے۔

پاکستان میں فسٹیولا کی روک تھام اور علاج

a man and a woman in t-shirts that say, "Fight Against Fistula."
یوگنڈا میں ناسور سے پیدا ہونے والے مسائل کی طرف توجہ دلانے کےلیے سیکڑوں افراد نے ۱۰کلومیٹر طویل دوڑ میں شرکت کی۔

پاکستان کی دیہی آبادیوں کی عورتیں برسوں سے فسٹیولا کی بدنامی کا داغ برداشت کررہی ہیں۔ اب ان مقامی آبادیوں میں ڈاکٹر اور مڈوائفیں لوگوں کو مسئلے کا حقیقی سبب سمجھنے میں مدد دے رہی ہیں جس سے اس تصور کی روک تھام کرنے میں مدد مل رہی ہے کہ فسٹیولا بدنصیبی کی علامت ہے۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید نے کراچی میں خواتین کے لیے کوہی گوٹھ اسپتال قائم کیا اور ناسور میں مبتلا ایک ہزار سے زائد عورتوں کو نگہداشت فراہم کرنے کی خاطر رقم جمع کرنے کےلیے عوامی تعلیم کی مہم چلائی۔ایک اداکارہ شیما کرمانی، فسٹیولا اور ماؤں کی اموات کے بارے میں آگہی بڑھانے اور یہ سمجھانے کے لیے کہ ناسور کا علاج کیسے کرایا جائے، کمیونٹی ڈراما استعمال کررہی ہیں۔

فسٹیولا کی روک تھام اور عورتو ں کو جلد علاج مہیا کرنے کی ان کوششوں سے اس مسئلے کی شکار عورتوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ مقامی آبادی میں تعلیم اور عوامی مکالمے سے بھی فسٹیولا کے بارے میں داغ اور رسوائی کا تصور کم ہوا ہے۔ فسٹیولا کے بارے میں آگہی بڑھانے میں پیش پیش دیہی رہنما اور مڈوائفیں، خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کی قومی اور بین الاقوامی کاوشوں سے منسلک ہوگئی ہیں۔ ان روابطوں سے پاکستان میں محفوظ مامتا اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی مہارتیں بہتر ہوئی ہیں۔ خواتین کے حقوق اور انسانی وقار کے فروغ کے لیے اسی طرح کا کام افریقہ، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ۴۰سے زائد ممالک میں ہورہا ہے۔