Hesperian Health Guides

صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والے مرد

اس باب میں:

صنفی مساوات میں سب سے متحرک قوت عورتیں رہی ہیں اور ہوں گی۔ بعض مردوں کے لیے اپنی طاقت اور حقوق کو خواتین کے ساتھ بانٹنا مشکل ہوتا ہے۔ بیشتر مرد ان صنفی کرداروں میں کسی تبدیلی کی مخالفت کرتے ہیں جن میں خواتین کو اپنی زندگی پر زیادہ اختیار دیا جائے۔ لیکن زیادہ سے زیادہ مرد عورتوں کی حیثیت بلند کرنے والی تبدیلیوں کو قبول کررہے ہیں اور ان کی حمایت کررہے ہیں کیونکہ وہ سمجھ گئے ہیں کہ صنفی مساوات سے سب کا معیار زندگی بہتر ہوجاتا ہے۔

مردوں میں اکثر صنفی مساوات کے لیے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ اسے انصاف کے حصول کے لیے کی جانے والی دوسری جدوجہد کا اہم حصہ سمجھتے ہیں، جیسے زمین اور وسائل پر اختیار، تعلیم اور صحت کی سہولتوں تک رسائی اور تشدد سے نجات۔

زندگی کا ایک دن (صفحات 48تا 49) اور صنفی حلقے (صفحات 44تا 45) جیسی سرگرمیوں سے مردوں کو عدم مساوات کے باعث عورتوں کو درپیش مشکلات سمجھنے اور ہمدردی محسوس کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ممکن ہے بیشتر مرد پہلے ہی اس بارے میں سوچ رہے ہوں کہ صنفی توقعات بدلنے

ایکویڈور میں نوجوان مردوں کا مردانہ جارحیت کے خلاف اتحاد

جنوبی امریکہ کے ملک ایکویڈور میں مردوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر پر اور گھر کے باہر اپنی مردانگی دکھانے کے لیے ’ماچو ‘ بننے کی کوشش کریں یعنی جنسی طور پر غالب اور جارح۔ لیکن بڑھتی ہوئی نوجوان نسل کی وجہ سے جو ’’گلابی ٹوپی‘‘ نامی گروپ کی شکل میں منظم ہیں،اس قسم کی مردانہ جارحیت کے بارے میں رویے بدل رہے ہیں۔ یہ نوجوان گلابی ٹی شرٹس پہنتے ہیں اور نئے رویوں کو فروغ دینے کے لیے کام کررہے ہیں جن میں عورتوں کے خلاف تشدد، صنفی عدم مساوات اور جنسی استحصال کے خاتمے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

a young man in a Cascas Rosa shirt speaks into a microphone while another watches.
’’گلابی ٹوپی‘‘ تنظیم نے ایک ریڈیو پروگرام شروع کیا جس میں جنسیت، صنفی تشدد اور دوسرے مسائل پر کھل کر بات کی جاتی ہے۔

’’گلابی ٹوپی‘‘ تنظیم 2010ء میں پہلی بار نوجوانوں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے شروع کی جنہیں سٹیزنز ایکشن فار ڈیموکریسی اینڈ ڈیولپمنٹ (جمہوریت اور ترقی کے لیے شہریوں کے اقدام) کے ایکویڈور کے چیپٹر سے آگہی بڑھانے کی تربیت ملی تھی۔ انھیں اس طاقت کے بارے میں معلوم ہوا جو مردوں کو عورتوں پر حاصل ہے اور جو عورتوں کو ان کے حقوق اور آزادیاں حاصل کرنے سے روکتی ہے، عورتوں پر تشدد کے بارے میں معلومات

تب سے ’’گلابی ٹوپی‘‘ تنظیم پھلی پھولی ہے اور اس میں نوجوان عورتیں بھی شامل ہوئی ہیں۔ وہ تقاریر کرتے ہیں، اسکولوں، کمیونٹی سینٹروں اور ان مقامات پر جہاں نوجوان جمع ہوتے ہیں، آگہی بڑھانے والی سرگرمیاں پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ تبدیلی جلدی نہیں آتی۔ وہ لوگوں میں اپنی ذاتی زندگی میں ممکنہ تبدیلیوں کے بارے میں سوچ پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد پڑسکے جہاں مساوات، انسانی حقوق اور انصاف ہو۔

بانی رکن ڈیمین ویلینیکا نے بتایا کہ جب سے و ہ شریک ہوئے ہیں ان کے اپنے گھر میں کیا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’سب کچھ بدل چکا ہے خصوصاً میرے والد۔ پہلے وہ کبھی کوئی کام نہیں کرتے تھے اور اب وہ برتن دھوتے ہیں اور بعض اوقات استری بھی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے میری ماں زیادہ خوش اور مطمئن ہیں کیونکہ ان کا بوجھ کم ہوگیا ہے۔‘ بیشتر نوجوان کہتے ہیں کہ ان کے تجربے بھی ڈیمین کے خاندان کی طرح کے ہیں۔ ان کے والدین کے تعلقات بہتر ہوگئے ہیں اور ان کے گھر میں تشدد کم ہوگیا ہے، ہر ایک کو فائدہ ہوا ہے۔

ہاسک : مردوں کے لیے صنفی مذاکرہ

فلپائن میں ’’ہاسک‘‘ (Harnessing Self-reliant Initiatives and Knowledge-HASIK) نامی ایک گروپ نے مردوںمیں صنفی آگاہی کے لیے ایک تین روزہ مذاکرے کا اہتمام کیا۔ اپنے کام میں ’’ہاسک‘‘ نے دیکھا کہ لوگ (تنظیمیں اور برادریاں) اس وقت زیادہ بدلتے ہیں جب وہ گہرائی میں جاکر ان مسائل کو سمجھتے ہیں جن کا عورتوں کو صنفی عدم برابری کی وجہ سے سامنا کرنا پڑتا ہے، اس بارے میں ان میں شدید احساسات پیدا ہوتے ہیںاور وہ تبدیلی کے راستے دیکھتے ہیں۔

a man speaking.
اگر آپ مردوں کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں تو انہیں ان کے ذہن، جسم اور دل کے ساتھ شریک کرنا ہوگا۔

مرد یہ بات ہمیشہ نہیں سمجھ پاتے کہ صنفی عدم مساوات سے سب کو نقصان ہوتا ہے اور خصوصاً اس بات کو کہ عورتوںکو اس سے کتنی تکلیف ہے۔’’ہاسک‘‘ کو معلوم تھا کہ کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ مردوں کو ان کی آگہی کے فقدان پر شرمندہ کیے بغیر اس تکلیف اور اس میںمردوں کے کردار کا احساس دلایا جائے ۔

مردوں کو ابتدا میں ذہنی طور پرپرسکون رکھنے کے لیے میزبان، انھیں ہنسی مذاق کرنے، بولنے اور عورتوں کے بارے میں اپنی رائے ظاہرکرنے کا موقع دیتے ہیں اور ان کی تردید نہیں کرتے، نہ ہی بیچ میں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ مردوں اور عورتوں کے کردار پر بھی بحث کرتے ہیں (دیکھیے صنفی حلقے ، صفحہ 44)۔ چونکہ مرد یہ محسوس نہیں کرتے کہ ان پر نکتہ چینی یا تنقیدکی جارہی ہے اس لیے وہ آرام سے اور کھل کر بات کرتے ہیں۔

اس کے بعد مردوں کو ایک ڈراما دکھایا جاتا ہے جس کا مقصد عورتوں کی مشکلات کے حوالےسے مردوں میں ہمدردی پیدا کرنا ہے۔ ’’عورتوں کی آواز سنو، عورتوں کا درد محسوس کرو ‘‘ میں خواتین کی زندگی اور تعلقات کے بارے میں تصویروں، وڈیوز، ذاتی کہانیوں اور حقائق کو گیتوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، مثلاً کتنی زیادہ عورتوں سے کام میں غیرمنصفانہ برتاؤ کیا جاتا ہے، تشدد کیا جاتا ہے اور کمتر حیثیت کی وجہ سے انھیں تکالیف کا سامنا ہوتا ہے۔ ڈرامے کے کچھ حصوں میں مردوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ اس پر غور کریں کہ ان کے افعال اور رویے اس مسئلے کی ایک وجہ ہوسکتے ہیں۔ بیشتر شرکأ اس نئی معلومات سے بہت پریشان ہوتے ہیں یا انھیں ذہنی دھچکا لگتا ہے اور بحث زیادہ سنجیدہ ہوجاتی ہے۔

’’ہاسک‘‘ کے میزبان نے دیکھا کہ اس مرحلے پر بہت سے مرد، عورتوں کو درپیش مسائل کو زیادہ گہرائی سے سمجھنے لگتےہیں لیکن بعض مرد پھر بھی پورے طور پر صنفی نابرابری کو نہیں سمجھتے اور نہ پروا کرتے ہیں۔ تفریحی انداز میں گروپ کی سمجھ بوجھ کو بڑھانے کے لیے ’’ہاسک‘‘ نے مقابلے پر مبنی ایک سرگرمی تشکیل دی۔ اس میں ہر ٹیم صنفی عدم مساوات کے اسباب کی تشریح کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسکور بنانے کےلیے مردوں کو ایک دوسرے کو قائل کرنے کے لیے مضبوط دلائل استعمال کرنے ہوتے ہیں۔ اس عمل میں مزید مرد قائل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک سرگرمی کے لیے دیکھیں ’موقف اختیار کرنا ‘ (صفحہ 261)۔

جب مردوں میں عورتوں کے بارے میں زیادہ آگاہی، ہمدردی اورتشویش پیدا ہوتی ہے تو وہ غور کرتے ہیں کہ حالات اور معاملات میں تبدیلی کیسے لائی جائے۔ ’امیج تھیٹر ‘ نامی سرگرمی کی مدد سے مرد، عورتوں کے لیے ناانصافی اور مایوسی کے روزمرہ

لمحات کو دیکھتے ہیں اور ان کو بدلنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس سے مردوں کو یہ سوچنے میں مدد ملتی ہے کہ اپنی زندگی، تعلقات اور برادری میں تبدیلیاں کیسے لائی جائیں۔ امیج تھیٹر کے لیے ہدایات نیچے دی گئی ہیں۔

مذاکرہ ایک رسم پر ختم ہوتا ہے۔ ایک پرسکون جگہ پر مرد پندرہ منٹ یہ سوچتے ہیں کہ صنفی تربیت سے ان پر ذاتی طور پر کیا اثر پڑے گا۔ پھر ہر مرد یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ فلاں طریقے سے اپنے خاندان یا برادری میں ایک یا دو عورتوں سے اپنے تعلقات میں انصاف کا احترام کرنے کے لیے کام کرے گا۔ تین روز تک سننے، بحث کرنے اور مختلف تخلیقی سرگرمیوں کے بعد، جن میں ان سے سوچنے کے نئے انداز اختیار کرنے کو کہا جاتا ہے، یہ غوروفکر اکثر ان کی سوچ بدل دیتا ہے جس سے وہ اپنی برداریوں میں عورتوں کی زندگی، صحت اور حقوق کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرنے والے مخلص کارکن بن جاتے ہیں۔

سرگرمی امیج تھیٹر

اس سرگرمی میںتین مختلف گروپ ہیں: مجسمے، مجسمہ ساز اور حاضرین۔ مجسمے ساکت رہ کر وہ کردار یا افعال دکھاتے ہیں جن پر آزاد استعارے کی سرگرمی میں بحث کی گئی ہو۔ بدن بولی کے ذریعے مجسمے دکھاتے ہیں کہ وہ کیا محسوس کررہے ہیں۔ مجسمہ ساز مجسموں کو ادھر ادھر حرکت دے سکتے ہیں لیکن ان سے بات نہیں کرسکتے۔ جو کچھ ہورہا ہو حاضرین اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس بارے میں تجاویز دیتے ہیں کہ مجسمہ ساز منظر کو کیسے تبدیل کرسکتے ہیں۔ پردے اور خاص ملبوسات استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  1. کئی افراد کو مجسمہ ساز یا مجسمہ بننے کے لیے منتخب کریں۔ انھیں کوئی منظر چننے میں مدد دیں جو دکھانا ہو،جس میں لوگ عام صنفی کردار ادا کریں جن پر گروپ پہلے بحث کرچکا ہےجیسے بیوی کھانا پکارہی ہے اور بچوں کو دیکھ رہی ہے جبکہ اس کا شوہر شراب پی رہا ہے یا سڑک پر زیادہ عمر کے مرد دو نوجوان عورتوں کو ہراساں کررہے ہیںیا کوئی مرد اپنی گرل فرینڈ پر چیخ رہا ہےاور اسے مارنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھائے ہوئے ہے۔
    a man and woman facing each other on a stage, with an audience member providing feedback.
    مرد کاہاتھ نیچے کردیں۔
  2. حاضرین سے پوچھیں کہ انھیں ان مناظرمیں کیا نظر آتا ہے۔ پھر مجسمہ سازوں کو موقع دیں کہ وہ لوگوں کے جسموں میں تبدیلی کرکے زیادہ مثبت نتیجے یا باہمی تعلق کی عکاسی کریں۔ حاضرین کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ ان سے پوچھیں کہ کیا چیز بدلی ہے اور مزید بہتری کیسے آسکتی ہے اور پھر منظر کیسا معلوم ہوگا۔ پھر حاضرین داخل ہوکر منظر میں مزید بہتری لاسکتے ہیں۔
  3. ان دو مراحل کے اختتام پر تھیٹر پر بحث کریں۔ منظر کیسے بدلا؟ کیا اس میں کوئی ایسی چیز تھی جس نے انھیں اپنی زندگی یاد دلائی؟ اگر ایسا ہے تو کیا اس سرگرمی سے اپنے تجربے کے بارے میں ان کی سوچ بدلی؟ اگر کوئی مرد اس منظر جیسی صورت حال میں ہو تو اپنے عمل کو تبدیل کرنے کے لیے کیا کرسکتا ہے؟