Hesperian Health Guides

صنف کا مطلب حیاتیات نہیں

اس باب میں:

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں ’لڑکا ہے یا لڑکی؟‘ بچے کے جنسی اعضا کو دیکھ کر اس سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ جنسی خواص حیاتیات (بایولوجی)کا حصہ ہیں۔ لیکن صنف (جینڈر) مختلف چیز ہے۔ ہماری ثقافت، روایات اور قوانین میں مردوں اور عورتوں کو صنفی کردار عطا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ عورتیں گھر کا کام کرتی ہیں اور مرد علاقے کے اہم فیصلے کرتے ہیں۔ لوگ اکثر صنفی کردار کو جنسی کردار میں گڈ مڈ کردیتے ہیں اور انھیں ’فطری ‘ اور ناقابل تبدیل گردانتے ہیں _ گویا ’معاملات بس اسی طرح ہیں ‘۔

صنف اور صحت کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ مرد اور عورت ہونے کے کون سے پہلو حیاتیاتی ہیں اور کن پہلوؤں کا فیصلہ لوگوں نے خود کیا ہے۔ ان دونوں کا فرق جاننے سے ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ ہم کیا تبدیل کرسکتے ہیں اور اپنے علاقے میں مردوں اور عورتوں کی عدم مساوات کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ہمیں اپنی کوششیں کہاں مرکوز کرنی چاہئیں۔

سرگرمی جنسی اور صنفی کردار: فرق کیا ہے؟?

  1. دو الگ الگ صفحوں پر ایک مرد اور ایک عورت کی تصویریں لگائیں۔ لوگوں سے کہیں کہ ہر اس چیزکا نام لیں جسے سن کر انھیں لفظ ’مرد ‘ اور ’عورت ‘ کا خیال آتا ہے۔ اپنے خیالات کاغذ پر لکھیں۔ لوگوں سے کہیں کہ جسمانی خصوصیات، شخصی خواص، صلاحیتوں، خاندان اور برادری میں حیثیت کے بارے میں سوچیں اور یہ غور کریں کہ مرد یا عورتیں کیا محسوس کرتی ہیں اور کیا کرتی ہیں۔ پھر یہ فہرستیں بآواز بلند گروپ کے سامنے پڑھیں۔
    illustration of the above: lists of sex and gender roles for men and for women.
    طاقتور    سخت جان
    کمانے والا
    مردانہ عضو    روتا نہیں ہے
    کسی سے مدد نہیں مانتا
    تشدد کرنے والا    مضبوط پٹھے
    جب خواہش ہو مباشرت کرنے والا
    اختیار رکھنے والا     ڈاکٹر
    ایتھیلیٹ    بہادر
    جج     مونچھیں
    لیڈر
    کھلاڑی
    خاموش،     خوبصورت
    چھاتیاں
    ماہواری
    حاملہ     ماں
    دیکھ بھال کرناr        جذباتی
    مردوں کا حکم ماننے والی
    دوسروں کو خوش کرنے والی      ملازمہ عمل پسند
    ;باپ کا حکم ماننا
    نرس     ٹیچر      جنسی کشش
    میک اپ      اطاعت گزار
    بچے پیدا کرنا
    کھانا پکانا     صفائی
  2. تصویروں کو آپس میں بدل دیں، اس طرح کہ ’مرد ‘ کے بارے میں جو لکھا گیا ہے اس کے اوپر عورت کی تصویر ہو اور ’عورت‘ کے لیے جو لکھا گیا ہے اس کے اوپر مرد کی تصویر ہو۔ گروپ سے پوچھیں کہ ’مرد ‘ کی فہرست میں کون سے الفاظ ہیں جو عورتوں پر قطعی چسپاں نہیں ہوسکتے۔ ان الفاظ کو کاٹ دیں۔ وضاحت کریں کہ کاٹے ہوئے تمام الفاظ کا تعلق مردوں کی جنس سے ہے۔جو الفاظ باقی رہ گئے ہیں وہ اس صنفی کردار کو بیان کرتے ہیں جس کی معاشرہ مردوں سے توقع کرتا ہے۔
  3. یہی عمل ’عورت ‘ کی فہرست میں موجود الفاظ کے ساتھ دہرائیں۔ وہ الفاظ کاٹ دیں جو مرد پر قطعی چسپاں نہیں ہوسکتے جیسے ’ماہواری ‘ اور ’بچے جننا ‘۔ کاٹے ہوئے الفاظ عورتوں کے جسم سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی عورتوں کی جنس سے۔ جو الفاظ باقی رہ گئے ہیں وہ صنفی کردار کو بیان کرتے ہیں۔
  4. جنسی (جسمانی طور پر مرد یا عورت ہونا) اور صنفی کردار کے درمیان فرق پر بحث کریں۔ یعنی عورتوں اور مردوں سے دیکھنے، محسوس کرنے، سوچنے اور عمل کرنے میں کس طرح کی توقع کی جاتی ہے۔ کچھ ممکنہ سوالات یہ ہیں:
    • جنس اور صنف میں فرق کو آپ کیسے بیان کریں گی؟
    • کیا آپ ان تمام خیالات سے اتفاق کرتی ہیں جو مردوں کو بیان کرتے ہیں اور جو عورتوں کو بیان کرتے ہیں؟ آپ کن خیالات سے اختلاف کرتی ہیں؟ کیوں؟
    • صنفی لحاظ سے مردوں اور عورتوں کے کون سے کردار مشترک ہیں؟
    • لڑکے اور لڑکیاں اپنے صنفی کردار کے بارے میں کیسے سیکھتے ہیں؟
  5. گروپ سے پوچھیں کہ کون سی دوسری چیزیں صنفی کردار پر اثر انداز ہوسکتی ہیں مثلاً عمر، تعلیم، جِلد کا رنگ یا کسی جائیداد کا مالک ہونا یا کسی خاص ذات یا قبیلے سے تعلق ہونا۔

    اونچی یا نیچی حیثیت کی عورتوں اور مردوں سے صنفی توقعات کس طرح مختلف ہوتی ہیں؟ اپنے اور دوسروں کے لیے فیصلے کرنے کا زیادہ اختیار کس کے پاس ہے؟ کسے اپنی سوچ کا اظہار کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی زیادہ آزادی ہے؟
  6. آخر میںیہ بحث کریں کہ صنفی توقعات میں فرق کا عورتوں اور مردوں کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ کون سے کردار اور توقعات صحت مند رہنے میں عورتوں یا مردوں کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں؟ کون سی توقعات عورتوں یا مردوں میں صحت کے مسائل پیدا کرسکتی ہیں؟


HAW Ch3 Page 43-1.png
بعض اوقات مردوں اور عورتوں کے ساتھ الگ الگ بات کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے تاکہ لوگ زیادہ کھل کر اور ایمانداری سے گفتگو کرسکیں۔

مردانگی اور نسوانیت کی پہچان

صنفی کردار اس بارے میں توقعات پیدا کرتے ہیں کہ بہترین یا آئیڈیل (مردانہ خصوصیات کا حامل) مرد کیسا ہوتا ہے اور بہترین یا آئیڈیل (نسوانیت سے بھرپور) عورت کیسی ہوتی ہے۔ جب کسی برادری میں صنفی توقعات میں باہمی احترام اور کردار و شناخت کے اختلافات کی سمجھ بوجھ موجود ہو تو مردو عورت اطمینان اور تسکین کے احساس کے ساتھ زندگی کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ لیکن نسوانی کردار کی حیثیت اکثر مردانہ کردار سے کمتر ہوتی ہے۔ صنفوں کی غیرمساوی حیثیت اس وقت خاص طور پر نقصان دہ ہوتی ہے جب مرد ہونے کا مطلب عورت یا کسی اور فرد پر، جو زیادہ نسوانیت کا حامل ہو یا محسوس ہوتا ہو، کنٹرول رکھنا ہو۔

مردوں اور عورتوں کی حیثیت کے درمیان اختلافات دیکھنے کا ایک طریقہ نسوانیت اور مردانگی کی ان خصوصیات پر غور کرنا ہے جنھیں بیشتر لوگ پسند کرتے ہیں۔ اس سے لوگوں کو اس بارے میں سوچنے میں مددمل سکتی ہے کہ سماج کن خصوصیات کو پسند کرتا ہےاور کیوں۔ اس قسم کے غوروفکر سے گروپ کو یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ بیشتر عورتیں اور مرد صنفی توقعات کو مزید تقویت کیسے دیتے ہیں اور اگر کوئی شخص ان توقعات کے خلاف عمل کرے تو کیا ہوتا ہے۔

سرگرمی صنفی حلقے

  1. اپنے گروپ کو عورتوں یا مردوں کے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کریں۔ ہر چھوٹے گروپ کو ایک بڑا سا کاغذ دیں۔
  2. ہر گروپ کو ’آئیڈیل ‘ عورت یا ’آئیڈیل ‘ مرد کی تصویربنانے کو کہیں، خواہ اپنی جنس کی یا مخالف جنس کی۔ آئیڈیل انداز سے اس شخص کو لباس پہنائیں۔ ان سے کہیں کہ تصویر کے گرد بڑا سا ڈبہ بنائیں، اس طرح کہ پورا شخص ڈبے یا بڑے خانے کے اندر ہو۔
  3. اب گروپوں سے کہیں کہ حلقے کے اندر موجود جسم کے گرد وہ تمام خصوصیات لکھیں یا تصویر کھینچیں جو کسی آئیڈیل عورت یا مرد میں ہوتی ہیں۔ لوگوں سے اس بارے میں غور کرنے کو کہیں کہ سماج میں عورتوں اور مردوں سے کیسا نظر آنے یا عمل کرنے کی توقع کی جاتی ہے، اپنے کام میں، کنبے میں اور جنسی تعلقات میں۔ مردوں سے کن صلاحیتوں کی توقع کی جاتی ہے؟ عورتوں سے کن صلاحیتوں کی توقع کی جاتی ہے؟مردوں کے لیے کن احساسات کا اظہار کرنا مناسب سمجھا جاتا ہے؟ عورتوں سے کن احساسات کا؟
  4. اب گروپوں سے کہیں کہ ان خواص کے بارے میں سوچیں جو زیادہ تر عورتوں اور مردوں میں آئیڈیل نہیں سمجھے جاتے۔ ان خصوصیات کو حلقے کے باہر کاغذ پر لکھیں یا تصویر کھینچیں۔آپ یہ پوچھ سکتی ہیں: مردوں کو کون سے احساسات چھپانے چاہئیں؟ عورتوں کو اس بارے میں کیا کرنا چاہیے؟
    illustration of the above: gender boxes for men and women.
    چھوٹا
    غمزدہ ہو تو رونا
    کمزور
    پستہ قد
    بے روزگار
    مضبوط
    باعزت
    خوف زدہ
    پراعتماد
    جذباتی
    کھانا پکانے کا شوقین
    مضبوط
    پراعتماد
    اچھی تنخواہ
    اچھا کفیل
    باعزت
    زور سے بولنا
    مہم جو
    اسپورٹس پسند ہیں
    بہت جاننا
    خاموش
    مددگار
    باعزت
    جارح
    بہت مطالبہ کرنا
    مضبوط
    بدصورت
    مددگار
    بہت پڑھنا
    اسکول پسندہے
    خوبصورت
    اپنی بات جتانا
    مضبوط
  5. گروپوں کو یکجا کریں اور ان سے کہیں کہ اپنی تصویریں پیش کریں۔
  6. تصویروں اور ان میں ظاہر کی گئی توقعات پر بحث کریں۔ مثال کے طور پر پوچھیں کہ حلقے کے اندر موجود خصوصیات یا افعال سے آئیڈیل مرد یا عورت کو کیسے فائدہ ہوتا ہے۔ کن خواص یا افعال کو کمزور یا کم اہم سمجھا جاتا ہے؟ کیوں؟
  7. گروپ سے پوچھیںکہ کیا ان کے خیال میں بیشتر عورتوں یا مردوں کے لیے ان آئیڈیل خصوصیات کا حامل ہونا مشکل ہے؟ کیوں؟ ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جو ’آئیڈیل ‘ حلقے کے اندر نہیں آتے یا ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جو ’آئیڈیل ‘ حلقوں کے باہر رہنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا مختلف ہونے کے فوائد اور نقصانات دونوںہیں؟ کس کس طرح؟ (آپ دیکھیں گی کہ حقیقی افراد میں دونوں حلقوں کی تھوڑی تھوڑی خصوصیات ہوتی ہیں)۔ گروپ سے پوچھیں: یہ ڈبے مردوں اور عورتوں کی صحت پر کیا اثر ڈالتے ہیں؟
  8. اب پوچھیں: یہ حلقے کہاں سے آئے؟ لوگ لڑکی، لڑکا،عورت یا مرد ہونے کے ’اصول ‘ کہاں سے سیکھتے ہیں؟یہ اصول کون سکھاتا ہے؟ کتنے اصول والدین کی طرف سے آئے ہیں؟ کتنے اساتذہ یا مذہبی رہنماؤں کی طرف سے آئے ہیں؟ ذرائع ابلاغ -ٹی وی، اشتہارات، فلمیں، گانے اور وڈیوز -کی طرف سے کتنے اصول آئے ہیں؟

صنفی کرداروں کے بارے میں مزید جاننے کے لیے صرف خواتین پر مشتمل گروپ کے ساتھ آپ یہ سرگرمی کرسکتی ہیں:اگر صنفی حلقے نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ (صفحہ 46)۔

صنفی حلقوں کے بغیر دنیا کا تصور کریں

عورتیں اپنے تجربات اور احساسات کے بارے میں ایک دوسرے سے تنہائی میں باتیں کرتی ہیں۔ اپنی زندگی کی مشکلات کے بارے میں -خصوصاً مردوں کے ساتھ مشکل تعلقات کے بارے میں-گفتگو کرنے سے عورتوں کا احساسِ تنہائی کم ہوتا ہے۔ لیکن اس قسم کی گفتگو میں عموماً مشکلات کی وجوہات یا اس بارے میں سوالات نہیں اٹھائے جاتے کہ معاملات مختلف کیسے ہوسکتے تھے۔ غوروفکر اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر سرگرمی انجام دینے سے عورتوں کو اپنے تجربات کے بارے میں تبادلۂ خیال کے لیے اورمردوں اور اپنے کرداروں کا موازنہ کرنے کے لیے پرسکون اور محفوظ جگہ مل سکتی ہے۔es.

یہ سرگرمی صنفی حلقوں کی سرگرمی کے بعد کی جاسکتی ہے اور اس سے گروپ کو اس بارے میں غور کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ صنفی کردار اور توقعات میں وہ تبدیلیاں کیسے لائی جاسکتی ہیں جس سے عورتوں کو اپنی صحت کے معاملات پر زیادہ اختیار مل سکے۔

سرگرمی اگر صنفی حلقے نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ ?

اس سرگرمی میں عورتوں اور لڑکیوں کو شامل کریں، مرد یا لڑکے موجود نہ ہوں۔ (اسے مردوں اور لڑکوں کے لیے ڈھالا جاسکتا ہے)۔ گروپ کو صنفی حلقے دکھائیں جو صفحات 44تا 45پر دی گئی سرگرمی میں بنائے گئے تھے۔ وضاحت کریں کہ اس سرگرمی سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ معاملات مختلف کیسے ہوسکتے تھے-کیا ہوتا اگر صنفی حلقےنہ ہوتے؟

  1. غور وفکر میں رہنمائی۔ عورتوں سے کہیں کہ دائرے کی شکل میں بیٹھیں تاکہ ماحول میں ایک دوسرے سے قربت کا احساس ہو اور یہ نہ لگے کہ اجلاس ہورہا ہے۔آپ چاہیں تو کمرے میں اندھیرا کرسکتی ہیں یا ہلکی موسیقی کا اہتمام کرسکتی ہیں۔ خواتین سے کہیں کہ آنکھیں بند کریں، گہری سانسیں لیں اور خود کو چھوٹی بچیاں تصور کریں۔ وضاحت کردیں کہ پہلے آپ ان سے چیزیں یاد کرنے کو اور پھر تصورکرنے کو کہیں گی۔ عورتوں کو خود ہی سوچنا ہوگا، بآواز بلند جواب نہیں دینا ہوگا-یہ خاموش مشق ہے۔ پرسکون آواز میں آہستہ آہستہ بولتے ہوئے اس طرح کے سوالات کریں:
    • آپ کو پہلی بار کب اندازہ ہوا کہ لڑکی ہونا لڑکا ہونے سے مختلف ہے؟ آپ نے اس بات کا کیسے اندازہ کیا اور کیسا محسوس ہوا؟
    • اگر لڑکوں اور لڑکیوں سے یکساں سلوک کیا جاتا تو لڑکی ہونا کیسےمختلف ہوتا؟ اگر ان کی آزادی اور ذمے داریاں یکساں ہوتیں؟
    • مرد کے لیے مزید آزادی کیسی لگے گی؟ اگر مردوں کے کردار اور ذمے داریوں میں عورتیں یکساں طور پر شریک ہوں تو مردوں کی زندگی میں کیا فرق آئے گا؟
    • عورت کے لیے مزید آزادی کیسی لگے گی؟ اگر عورتوں کے کردار اور ذمے داریوں میں مرد یکساں طور پر شریک ہوں تو عورتوں کی زندگی میں کیا فرق آئے گا؟

    ہر سوال کے بعد ایک دو منٹ کا وقفہ کریں تاکہ ہر عورت کو سوچنے کے لیے مناسب وقت مل سکے۔
  2. چھوٹے گروپوں کی شکل میں باہمی شراکت۔ عورتوں سے کہیں کہ اپنی آنکھیں کھولیں اور انھیں دعوت دیں کہ چھوٹے گروپوں کی شکل میں رہنمائی کے ساتھ کیے گئے غوروفکر سے ملنے والے کچھ خیالات کا باہم تبادلہ کریں۔ ہر عورت کو بات کرنے کا کافی وقت ملنا چاہیے جس میں دوسری خواتین خاموشی سے سنیں۔
  3. صنفی خانوں کے بغیر دنیا کا تصور۔ جب ہر عورت اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ، تو عورتوں سے کہیں کہ وہ چھوٹے گروپوں کی شکل میں رہیں اور مندرجہ ذیل سوالات پر بحث کریں:
    • اگر لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کیا جائے تو کیا لڑکیوں کا رویہ مختلف ہوجائے گا؟ وہ کیسا محسوس کریں گی؟
    • اگر عورتوں کو بھی وہی آزادی، طاقت اور ذمے داریاں میسر ہوں جو مردوں کو ہیں تو عورتوں کا عمل کیسا ہوگا؟ وہ کیسا محسوس کریں گی؟
    • لڑکوں اور مردوں کا عمل اور احساس کیسا ہوگا؟
    • آپ کی اپنی زندگی میں کیا مختلف ہوگا؟ آپ جن عورتوں کو جانتی ہیں ان کی زندگی میں کیا مختلف ہوگا؟ آپ کی بیٹی کی زندگی میں؟ ماں کی زندگی میں؟?
  4. خانوں کے بغیر تصویریں۔ .6گروپوں سے نئی تصویریں بنانے کو بھی کہا جاسکتا ہے جس میں یہ ظاہر کیا جائے کہ صنفی خانوں کے بغیر زندگی کیسی ہوگی۔ ہر گروپ کو ایک بڑا سا کاغذ دیں اور ایسی دنیا کی ایک آئیڈیل عورت کی تصویر بنانے کو کہیں جہاں عورتوں کی بھی وہی آزادی، اختیار، توقعات اور ذمے داریاں ہیں جو مردوں کی ہیں۔ آپ ان سے آئیڈیل مرد بنانے کو بھی کہہ سکتی ہیں۔
    illustration of the above: the ideal woman and the ideal man.
    مثالی عورت
    اسمارٹ
    ہار نہیں مانتی
    مہربان
    پڑھائی میں محنتی
    ہنرمند
    ماں
    پراعتماد
    تعلیم یافتہ
    مسئلے حل کرتی ہے
    بے باک
    فیصلے کرتی ہے
    مضبوط
    اچھا کھانا بنانے والی
    اچھی ملازمت
    مثالی مرد
    وفادار
    سمجھدار
    بچے بیمار ہوں تو خیال رکھتا ہے
    باصلاحیت
    مددگار
    وفادار
    ہنر رکھتا ہے
    خیال رکھنے والا
    خود کو منوانے والا
    نشہ نہیں کرتا
    آمدنی میں شریک کرتا ہے
    محنتی
    بہادر
    مددگار
  5. خر میں گروپوں سے کہیں کہ اپنے تصورات اور تصویریں ایک دوسرے کو دکھائیں۔ آپ ہر ایک سے یہ بتانے کو کہہ سکتی ہیں کہ عورتوں اور لڑکیوں کی صحت میں کیا فرق آئے گا اور مردوں اور لڑکوں کی صحت میں کیا فرق آئے گا ۔ اتنا وقت ہونا چاہیے کہ شرکأ یہ بتاسکیں کہ سرگرمی کرتے وقت انھوں نے کیسا محسوس کیا اور بحث و مباحثے اور تصویریں بنانے کے بعد اب کیا سوچ رہی ہیں۔

صنف اور کام

ہر سماج میں کچھ کام ’مردوں کے کام ‘ سمجھے جاتے ہیں اور کچھ قسم کے کام ’عورتوں کے کام ‘ سمجھے جاتے ہیں۔ کام کے حوالے سے توقعات میں یہ فرق صنفی کرداروں کا حصہ ہیں۔

بیشتر عورتیں جو کام کرتی ہیں، یعنی بچوں کی دیکھ بھال اور خاندان کی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنا، اسے اکثر زیادہ اہم نہیں سمجھا جاتا بلکہ بعض اوقات اسے کام ہی تصور نہیں کیا جاتا۔ عورتوںکی حیثیت کم ہونے اور کام کا نامناسب بوجھ ڈالے جانے کی یہ ایک وجہ ہے۔ صنفی کردار اور کام کے بارے میں بحث کرنے سے لوگوں کو خواتین کی زندگی میں ایسی تبدیلیوں کے بارے میں سوچنے میں مدد مل سکتی ہے جس سے عورتوں کی صحت بہتر ہوسکے۔

women working at home and in a factory; one of them stirs a pot and speaks to her children while a man sleeps.
اپنے باپ کو پریشان نہ کرو۔ وہ بہت محنت کرتے ہیں۔ انہیں آرام کی ضرورت ہے۔

سرگرمی زندگی کا ایک دن

مرد اور عورتیں ایک دن میں جو سرگرمیاں انجام دیتے ہیں ان کی فہرستیں بنانے سے کام اور صِنف پر بحث کے لیے اچھا مواد فراہم ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات مردوں اور عورتوں کو اچھی طرح اندازہ نہیں ہوتا کہ دوسری صِنف دن بھر کیا کرتی ہے! یہ سرگرمی فقط عورتوں پر مشتمل گروپ کے لیے بھی کی جاسکتی ہے تاکہ اس بارے میں آگہی بڑھے کہ ان کی گھریلو ذمے داریاں قابلِ قدر کام ہے۔

  1. اپنے گروپ کو مردوں یا عورتوں کے چھوٹےچھوٹے گروپوں میں تقسیم کریں۔ مردوں کے گروپوں سے کہیں کہ ان تمام سرگرمیوں کی فہرست بنائیں جو ایک عام مرد کسی عام دن کے دوران صبح جاگنے سے رات کو سونے تک انجام دیتا ہے۔ عورتوں سے کہیں کہ یہی کام عورتوں کے لیے کریں۔ آپ چاہیں تو اس بات پر غور کرنے کو بھی کہہ سکتی ہیں کہ ہر سرگرمی میں کتنا وقت لگتا ہے، سرگرمی کہاں انجام دی جاتی ہے اور اس سرگرمی میں کون مدد دیتا ہے۔
  2. پہلی فہرست مکمل ہونے کے بعد مردوں کے گروپ سے کہیں کہ ایک اور فہرست بنائیں جس میں وہ تمام سرگرمیاں درج کریں جو اسی وقت کے دوران ان کے خیال میں عورتیں انجام دیتی ہیں اور عورتوں کے گروپوں سے یہی عمل مردوں کے بارے میں کرنے کو کہیں۔
  3. جب دونوں فہرستیں مکمل ہوجائیں تو بڑے گروپ کو بتائیں۔
  4. فہرست بنانے کے عمل کے بارے میں بحث کریں۔ آپ لوگوں سے پوچھ سکتی ہیں کہ آیا انھیں فہرست کے کسی حصے کو دیکھ کر یا فہرست سازی کے کسی حصے سے حیرت ہوئی ہے۔ کیا وہ سمجھتی ہیں کہ عورتوں نے مردوں کی سرگرمیوں کی فہرست زیادہ اچھی بنائی؟ کیا مردوں نے عورتوں کی سرگرمیوں کی فہرست زیادہ اچھی بنائی؟
  5. فہرست میں شامل اجزأ پر بحث کریں۔ عورتیں اور مرد جو سرگرمیاں انجام دیتے ہیں ان میں کیا مختلف ہے؟ عورتیں اور مرد مختلف سرگرمیاں کیوں انجام دیتے ہیں؟ مردوں کے کام کی فہرست میں کون سی سرگرمیاں ایسی ہیں جو عورتیں بھی کرسکتی ہیں؟ عورتوں کے کام کی فہرست میں کون سی سرگرمیاں ایسی ہیں جو مرد بھی کرسکتے ہیں؟ کیوں نہیں کرسکتے اور کیوں کرسکتے ہیں؟
  6. عورتوں او رمردوں کے درمیان دیگر اختلافات پر بحث کریں جو دوسری صنف کے کام سے متعلق ہیں۔ مثال کے طور پر پوچھیں کہ کس گروپ کے پاس اپنی مرضی سے وقت گزارنے کے لیے زیادہ فرصت ہے۔ کس گروپ کے کام کا بوجھ زیادہ ہے؟ کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ فرق جائز ہے؟ کیوں یا کیوں نہیں؟
  7. عورتوں او رمردوں کے درمیان دیگر اختلافات پر بحث کریں جو دوسری صنف کے کام سے متعلق ہیں۔ مثال کے طور پر پوچھیں کہ کس گروپ کے پاس اپنی مرضی سے وقت گزارنے کے لیے زیادہ فرصت ہے۔ کس گروپ کے کام کا بوجھ زیادہ ہے؟ کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ فرق جائز ہے؟ کیوں یا کیوں نہیں؟
    men and women speaking in a group.
    یں نے کبھی نہیں سوچا کہ عورتیں کچھ کام بھی کرتی ہیں۔
    میں شہر میں سارا دن کام کرتی ہوں پھر گھر میںبھی کام ہوتا ہے اور کبھی آرام نہیں ملتا۔
    میں ہمیشہ یہ سمجھتا تھا کہ مردوں کو زیادہ غذا اور آرام درکار ہوتا ہے کیونکہ وہ زیادہ کام کرتے ہیں۔ اب میرا خیال ہے کہ عورتیں بہت محنت کرتی ہیں لیکن کھانااور آرام انہیں کم ملتا ہے۔
    معلوم ہوتا ہے عورتیں زیادہ وقت کام کرتی ہیں اور کم آرام کرتی ہیں۔ یہ انصاف نہیں!

گیانا کی ’’ سرخ ڈور‘‘ -جس نے صحت اور حقوق کے لیے خواتین کو متحد کردیا

a woman working outside her house while another woman asks her questions.

جنوبی امریکہ کے ملک گیانا میں لوگوں کا مختلف نسلی گروپوں سے تعلق ہے جن کے مختلف رسوم و رواج ہیں۔ ایک گروپ وہ ہے جو زیادہ تر افریقیوں کی اولاد ہے جنہیں غلام بنا کر لایا گیا تھا، ایک اور گروپ انڈین تارکین وطن ہیں اور ایک تیسرا گروپ گیانا کے اصل باشندے ہیں۔ برسوں تک یہ مختلف نسلی گروپ ایک دوسرے کے شدید مخالف رہے اور عورتیں یہ محسوس

نہیں کرتی تھیں کہ ان کے درمیان کوئی قدر مشترک ہے۔ ’سرخ ڈور ‘ نامی ایک تنظیم خواتین کو متحد کرنے کا کوئی راستہ ڈھونڈنے اور گیانا کی تمام عورتوں کی حیثیت بلند کرنے کے لیے کام کرنا چاہتی تھی۔ سرخ ڈور نے یہ جاننے کے لیے ایک سروے کیا کہ عورتیں اپنا وقت کیسے گزارتی ہیں۔ سرخ ڈور کے ارکان نے ملک بھر میں ہر جگہ خواتین سے ملاقات

کی اور سروے کی مدد سے ان سے دریافت کیا کہ وہ سارا دن کیا کرتی ہیں۔ پتہ چلا کہ زیادہ تر خواتین کے دن ملتے جلتے انداز میں گزرتے ہیں: وہ جلد اٹھتی ہیں، پانی یا ایندھن اکٹھا کرتی ہیں، کھانا پکاتی ہیں، گھر والوں کو کھلاتی ہیں، صفائی کرتی ہیں، ایک چھوٹے سے باغیچے کی دیکھ بھال کرتی ہیں، وہ ملازمت کرتی ہیں جہاں انھیں تنخواہ ملتی ہے، کپڑے دھوتی ہیں، بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور مختلف دیگر کام کرتی ہیں۔ تقریباً تمام عورتیں روزانہ پندرہ سولہ گھنٹے کام کررہی تھیں۔ سرخ ڈور نے خواتین کو سروے کے نتائج دکھائے اور پوچھا ’ہم اپنے آپ کو تقسیم کیوں کررہے ہیں؟ ہم سب ایک ہی کام کیوں کررہے ہیں؟‘ اس منصوبے نے عورتوں کو متحد کرنے میں بہت کامیابی حاصل کی۔ سرخ ڈور خواتین کا ایک مضبوط کثیر النسل گروپ بن گیا جس نے خواتین کے حقوق کے فروغ کے لیے مختلف طریقوں سے کام کیا جس میں روزگار کمانا اور صنفی تشدد کا خاتمہ شامل تھا۔

صنفی کردار وقت کے ساتھ بدلتے ہیں

صنفی کرداروں میں عورتوں کو اکثر کمتر حیثیت دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں صحت کی سہولتوں تک رسائی کم ہوتی ہے، اپنے جسم پر اختیار کم ہوتا ہے، زیادہ وقت کام کرنا پڑتا ہے اور فیصلہ سازی کا اختیار کم ہوتا ہے۔ اگر مقامی آبادیاں عورتوں کی صحت کو بہتر بنانا چاہتی ہیں تو انھیں صنفی کرداروں کو تبدیل کرنا ہوگا، خصوصاً ان حیثیتوں میں جن میں عورتیں مردوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کام بہت مشکل محسوس ہو لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ صنف کا تعلق حیاتیات سے نہیں-جس چیز کو ہم مردانہ پن یا نسوانیت سمجھتے ہیں اس کا تعلق فطرت سے نہیں بلکہ مردوں اور عورتوں کے بارے میں ہمارے تصورات سے ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات یاد رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ دنیا کے ہر حصے میں زمانے کے ساتھ ساتھ صنفی کردار تبدیل ہوئے ہیں۔ ماضی اور حال میں عورتوں کی زندگی کا موازنہ کرنے سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ صنفی کردار بہرحال تبدیل ہوتے ہیں اور یہ تبدیلیاں عورتوں کی صحت کو کیونکر بہتر بناتی ہیں۔

سرگرمی پہلے ہم کیسے تھے

اس ’مچھلی کا پیالہ ‘ سرگرمی میں عمررسیدہ عورتیں ایک اندرونی دائرے میں بیٹھتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ ان کی ماؤں کی زندگی کیسی تھی۔ نوجوان عورتیں بیرونی دائرے میں بیٹھ کر سنتی ہیں اور بعد میں سوالات کرتی ہیں۔ سوالوں کے جوابات ملنے کے بعد یہ گروپ اپنی جگہیں تبدیل کرلیتے ہیں اور اب نوجوان عورتیں اس بارے میں اپنے خیالات ظاہر کرتی ہیں کہ حالات میں کیا تبدیلی آئی ہے جبکہ بزرگ خواتین سنتی ہیں۔

  1. عمررسیدہ خواتین کو تیار کرنے کے لیے ان سے کہیں کہ ان چیزوں کی بات کریں جو انھوں نے نسوانیت اور عورت ہونے کے بارے میں اپنی ماؤں سے سیکھی تھیں۔ نیز ان کی زندگی اپنی ماؤں کی زندگی سے کیسے مختلف ہے؟بطور عورت ان کی زندگی کو کس چیز نے مختلف بنایا؟ یہ تبدیلیاں کیوں آئیں؟ یہ پوچھیں کہ انھوںنے، ان کی سہیلیوں نے یا ماؤں نے عورتوں کے بارے میں سماج کی توقعات کے خلاف کس طرح بغاوت کی؟بعض عورتوں نے روایتی صنفی کرداروں کو کیسے توڑا؟ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ آپ ان سے یہ بھی کہہ سکتی ہیں کہ نوجوان عورتوں کو روایات کی تبدیلیوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان دوستی اور رومان کے اصولوں کے بارے میں بتائیں۔ کورٹ شپ، جنسی تعلقات اور شادی ہونے کے بارے میں اصول کیسے بدلے؟ ماضی میں عورتیں اپنی صحت کی دیکھ بھال کیسے کرتی تھیں؟
  2. مچھلی کا پیالہ میں جب نوجوان عورتوں کی باری آئے تو ان سے کہیں کہ گروپ کو بتائیں کہ عورت ہونے کے بارے میں انھیں کیا پسند ہے اور عورت ہونے میں ان کے خیال میں کن ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عورت ہونے کے بارے میں ان کے خیالات اور ان کی نانیوں دادیوں کے خیالات میں کیا فرق ہے؟ مقامی آبادی میں ان کے اور دوسروں کے خیالات کیسے مختلف ہیں؟ ان سے اپنے مستقبل کے مقاصد کے بارے میں پوچھیں۔ وہ کن عورتوں کو قابل تعریف سمجھتی ہیں؟ کیوں؟ شریک حیات یا شوہر میں وہ کیا دیکھنا چاہتی ہیں؟ مستقبل میں وہ اپنے لیے صحت مند زندگی کو کیسے دیکھتی ہیں؟
  3. خر میں پورے گروپ سے پوچھیں کہ اس سرگرمی سے صنف کے بارے میں کیا معلوم ہوا اور زمانے کے ساتھ اس میں کیا تبدیلیاں آئیں اور اپنی زندگی میں ہم اسے کیسے بدل سکتے ہیں۔


a woman speaking.
میں لڑکیوں کے ایک گروپ میں کام کرتی ہوں جو بالغ افراد کے ایک گروپ سے ملاقات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کے بجائے ہر لڑکی نے اپنی نانی یا کسی اور بزرگ خاتون سے جسے وہ جانتی تھی انٹرویو کیا۔ لڑکیوں نے جو سیکھا وہ ایک دوسرے کو بتا سکتی تھیں۔ کچھ نے نظمیں لکھیں، کچھ نے اخبار/ رسالے کے مضمون کی شکل میں انٹرویو لکھا اور بعض نے ڈرامے کا فن استعمال کرتے ہوئے اپنی نانی یا دادی کا کردار ادا کیا۔