Hesperian Health Guides
صنفی انصاف کے لیے قوانین کو استعمال کریں
ہیسپرین ہیلتھ ویکی > عورتوں کی صحت کا تحفظ عملی اقدامات کی کتاب > صنفی انصاف کے لیے قوانین کو استعمال کریں
اس قسم کے قوانین کو للکارنے، نئے قوانین متعارف کرانے اور صنفی مساوات کے فروغ کے قوانین اور پالیسیاں لانے کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کو بعض اوقات صنفی انصاف کہا جاتا ہے۔ ایسی اکثر کوششوں کی بنیاد متعدد بین الاقوامی معاہدے ہیں جن میں خواتین کے مساوی حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
فہرست
عورتوں اور مردوں کے مساوی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے
1945ء میں جب اقوام متحدہ قائم ہوئی تو اس نے ایک منشور تشکیل دیا جس میں ’مردوں اور عورتوں کے لیے مساوی حقوق ‘ کا مطالبہ کیا گیا۔ جب یہ منشور لکھا گیا اس وقت 51شریک ممالک میں سے صرف 30میں عورتوں کو مردوں جیسے ووٹنگ کے حقوق دینے کے قوانین موجود تھے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے منشور میں مساوی صنفی حقوق کی بات کی گئی تھی تاہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی دہائیوں تک بین الاقوامی کوششیں کی گئیں۔ آخر 1975ء میں خواتین کے حقوق پر بحث اور صنفی توقعات پر مبنی غیرمنصفانہ قوانین اور رواجوں میں تبدیلیاں تجویز کرنے کے لیے دنیا کے تقریباً ہر ملک کی عورتوں کا میکسیکو سٹی میں اجلاس ہوا ۔ پہلے اجلاس میں صنفی امتیاز کے خاتمے اور ترقی کے منصوبوں میں عورتوں کی شمولیت کا مطالبہ کیا گیا ۔ بعد میں ہونے والے اجلاسوں میں مزید تخصیصی بین الاقوامی معیار تشکیل دیے گئے جیسے خاندانی منصوبہ بندی تک سب کو رسائی کی فراہمی، لڑکیوں سے مساوی سلوک اور دنیا بھر کی حکومتوں میں خواتین کی شرکت میں اضافہ۔
بیشتر ممالک کی حکومتوں نے خواتین کی تجاویز سے اصولی اتفاق کیا لیکن مقامی خواتین کی تنظیموں، صحت کارکنوں اور ان کے رفقا کے لیے مضرقوانین کے خاتمے، ان کی جگہ منصفانہ قوانین لانے اور صنفی کرداروں اور انسانی حقوق کے بارے میں لوگوں کی سوچ بدلنے کے لیے اب بھی منظم ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی بہت کام باقی ہے!
اگلی دو کہانیوں میں دکھایا گیا ہے کہ دو افریقی ممالک کے گروپ منصفانہ قوانین کے لیے کیسے منظم ہوئے۔
بیواؤں کے ترکے کے حقوق کا تحفظ
افریقہ کے ملک کینیا میں جب کسی عورت کا شوہر فوت ہوتا ہے تو اس کا خاندان اکثر بیوہ کی زمین اور گھر پر قابض ہوجاتا ہے چاہے شوہر نے جائیداد اپنی بیوی کے نام چھوڑی ہو۔ گروٹس (Grassroots Ogranizations Operating Together in Sisterhood) نامی تنظیم عورتوں کے حقوق وراثت کے بارے میں مقامی آبادیوں میں آگاہی پیدا کرتی ہے۔گروٹس نے ’واچ ڈاگ ‘ گروپ بھی بنائے ہیں جو حال ہی میں بیوہ ہونے والے عورتوں اور ان کے بچوں کی جائیداد سے محرومی کے خلاف کام کرنے والے علاقے کے افراد پر مشتمل ہیں۔
گروٹس کا آغاز علاقے کے ’’سننے والوں کے گروپ‘‘ منظم کرنے سے ہوا جن میں شرکأ خواتین کی کہانیوں کی ریکارڈنگ سنتے تھے جو یہ بتاتی تھیں کہ شوہرکے مرنے کے بعد ان سے جائیداد کس طرح چھینی گئی اور انھیں کتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’سننے والوں کے گروپ‘‘ بڑھتے گئے اور مباحثے کے گروپ بن گئے جن میں علاقائی رہنما اور بزرگ بھی شامل تھے۔ ایک دوسرے کو یہ کہانیاں سنانے اور قانون کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرنے سے ہر ایک کو عورتوں کے وراثت اور جائیداد کے حقوق کا علم ہوگیا اور یہ پتہ چل گیا کہ کس طرح جائیداد پر قبضہ کیا جاتا ہےاور اس کی وجہ سے کتنی عورتیں اور بچے غربت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مقامی سرداروں اور دیگر روایتی رہنماؤں کے ساتھ مکالمے سے انھیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ ان بیواؤں اور واچ ڈاگس کی حمایت کرنے سے اس عمل کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ برادری کے کچھ ارکان نے پیرا لیگل مشیروں کی حیثیت سے تربیت بھی حاصل کرلی ہے جو خواتین کو انفرادی طور پر ان کے قانونی حقوق سے آگاہ کرسکتے ہیں۔
ایسی بستیوں اور دیہات کی تعداد بڑھ رہی ہے جہاں پولیس، روایتی رہنماؤں اور برادری نےبیوہ ہونے والی خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے مل جل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ملاوی میں بچوںکی شادی روکنے کی مہم
ملاوی میں قانون کہتا ہے کہ 15سے 18سال کی عمر کے درمیان، والدین کی اجازت سے لڑکی کی شادی کی جاسکتی ہے لیکن اس سے کم عمر میں شادی کے خلاف کوئی قانون نہیں۔ ملاوی میں تقریباً نصف سے زائد عورتوں کی شادی 18سال کی عمر سے پہلے ہوجاتی ہے۔ دیہی علاقوں میں بعض اوقات بارہ سال کی لڑکیوں کی شادی کردی جاتی ہے اور 15سال کی عمر میں شادی عام ہے۔ بیشتر لڑکیاں اسکول چھوڑ دیتی ہیں اور جلد ہی حاملہ ہوجاتی ہیں۔ لیکن اتنی کمسنی میں زچگی لڑکیوں اور ان کے بچوں کے لیے خطرناک ہے۔ ان کمسن دلہنوں کے ہاں پیدا ہونے والے نصف سے زائد بچے مرجاتے ہیں اور بہت کم عمر میں عورتوں کو فسٹیولا یا تولیدی ناسور (دیکھیں صفحہ 231) جیسی بیماری کا خدشہ ہوتا ہے ۔ تعلیم کے فقدان اور کام اور گھر داری کی مہارتیں نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت بدتر ہوجاتی ہے۔ ماں بننے کے بعد اکثر جلد ہی انھیں طلاق ہوجاتی ہے اور بیشتر کو اپنا خرچ پورا کرنے کے لیے عصمت فروشی کرنی پڑتی ہے۔
2010ء میں گرلز ایمپاورمنٹ نیٹ ورک (GENET) نے اس قانون کو بدلنے اور 18سال کو شادی کی عمر قرار دلوانے کے لیے مہم شروع کی۔ چونکہ قانون ساز عورتوں کی صحت پربچپن کی شادی کے اثرات سے متعلق معلومات سے قائل نہیں ہوئے تھے اس لیے جینیٹ نے قانون سازوں-اور تمام ملاوی باشندوں-کو یہ سنوانے کا فیصلہ کیا کہ اس بارے میں نوجوان عورتیں خود کیا کہتی ہیں۔ جینیٹ نے لڑکیوں کے لیے ایک تحریری مقابلے کا اہتمام کیا۔ انھیں 9سے 17سال کی عمر کے 1750مضامین موصول ہوئے۔ انھوں نے ان میں سے 72لڑکیوں کو فوکس گروپ مباحثے میں شرکت کے لیے منتخب کیا۔اس قسم کے سوالات استعمال کیے گئے:
’آپ بچپن کی شادی کے بارے میں کیا محسوس کرتی ہیں؟‘
’آپ کے خیال میں لڑکی کی شادی کی صحیح عمر کیا ہے؟‘
’آپ کا آئیڈیل یا خوابوں کا شوہرکیساہے؟‘
’کیا تعلیم یافتہ لڑکیاں بری بیویاں ثابت ہوتی ہیں؟‘
’کیا آپ اسی طرح کی شادی کرنا چاہیں گی جیسی آپ کے والدین کی ہوئی تھی؟‘
اس کے بعد ان میں سے 36لڑکیوں نے ایک فوٹو ورکشاپ میں شرکت کی۔ انھوں نے ایک دوسرےکی تصویریں کھینچیں اور مزید مضامین لکھے جن میں فوکس گروپوں میں زیر بحث آنے والے سوالوں کے جوابات دیے گئے۔ ان کے مضامین اور تصویریں اب ایک کتاب کی شکل میں آچکی ہیں جس کا عنوان ہے ’جب میں چاہوں گی شادی کروں گی!‘ جینیٹ نے قانون سازوں اور علاقائی رہنماؤں کو یہ دکھانے کےلیے کتاب تقسیم کی کہ ملاوی کی لڑکیاں شادی کی عمر کو بدل کر 18سال کرنے کی بھرپور حمایت کرتی ہیں اور اپنی زندگی میں اسے نافذ کرنے پر تیار ہیں۔
تبدیلی کے لیے ہمت اور وقت چاہیے
جب لوگ، عورتوں اور مردوں دونوں کے حق میں صنفی کرداروں کے غیر منصفانہ اور نقصان دہ ہونے کے بارے میں سوچ چکیں تو پھر تبدیلی لانے کے بارے میں سوچنا شروع کرسکتے ہیں۔ بیشتر افراد کے لیے اس کا مطلب ہوگا خود اپنے رویے اور توقعات تبدیل کرنا، نیز اپنی برادری کی روایات، حالات اور قوانین بدلنے کے لیے کام کرنا۔
اس کتاب کے اگلے ابواب میں پیش کیے گئے صحت کے بیشتر مسائل کی جڑ صنفی عدم مساوات ہے۔ ہر باب میں دی گئی سرگرمیوں اور کہانیوں سے صنفی مساوات اور خواتین کی صحت کے لیے کام کرنے کے مختلف طریقوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔