Hesperian Health Guides

تشدد روکنے کے لیے انصاف کے نظام کو موثر بنائیں

اس باب میں:

انصاف کے نظام__ یعنی قوانین، عدالتیں، پولیس او ردیگر حکام__ کا فرض ہے کہ مل کر خواتین اور تمام لوگوں کے تشدد سے پاک زندگی بسر کرنے کے حق کی حمایت کریں۔ لیکن یہ آزادی بہت کم میسر آتی ہے، صنفی تشدد بہت عام ہے۔ اکثر خواتین کے تحفظ کے اقدامات کا نفاذ نہیں کیا جاتا اور قانونی نظام تشدد کا نشانہ بننے والوں کو یہ محسوس کراتا ہے کہ ان پر جو تشدد ہوا ہے وہ انہی کی غلطی ہے۔ بہت سے مقامات پر صنفی تشدد کے خلاف قوانین ہی نہیں ہیں اور جہاں ہیں، وہ بے حد ناکافی ہیں جن میں بہتری کی ضرورت ہے۔

قانونی تحفظات کے بارے میں سیکھیں

علاقے میں تشدد کی روک تھام کرنے میں قوانین، عدالتیں، پولیس اور دیگر حکام سب لازمی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں معلومات اکثر الجھا دینے والی ہوتی ہیں کہ نظامِ انصاف کا ہر جز صنفی تشدد سے کیسے نمٹے۔ صنفی تشدد سے زیادہ موثر طور پر نمٹنے کے لیے لوگوں کو جاننا ہوگا کہ کون کون سے قانونی تحفظات موجود ہیں اور لکھےہوئے قوانین اور ان کے نفاذ میں فرق کہاں کہاں ہیں۔ بہتر قوانین، بہتر نفاذ اور رویوں کی تبدیلی کے لیے اسی وقت کام کیا جاسکتا ہے۔

صنفی تشدد سہنے والے افراد کی مدد کے لیے حکام کے کردار اور فرائض کے بارے میں جاننے کے لیے گروپ اگلی سرگرمی استعمال کرسکتا ہے۔

سرگرمی مقامی حکام کے کردار اور فرائض کے بارے میں گروپ تحقیق

قانون کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں تاکہ پہلے سے تیاری کی جاسکے۔ اگر ممکن ہو تو کسی ایسے فرد کو تلاش کریں جو نظام انصاف کے بارے میں جانتا ہو، جو آپ کی مدد کرے اور ریسورس پرسن کا کردار ادا کرے۔ یہ عمل اس وقت موثر ترین ہوگا جب آپ مختلف مقامی حکام میں سے ایسے افراد کا تعین کرسکیں جو کھل کر آپ کے گروپ سے بات چیت کرنے پر آمادہ ہوں۔

  1. ۱۔ پ کس سے رجوع کرسکتی ہیں؟ اس عمل کو شروع کرنے کے لیے گروپ کو یکجا کریں اور ان سے اس سوال پر بحث کرنے کو کہیں: ’آپ کی برادری میں عورتوں کے خلاف تشدد کا کوئی واقعہ ہو تو آپ مدد کے لیے کس کے پاس جائیں گی؟‘ ایک بڑے کاغذ پر ایک جدول بنائیں جیسی نیچے دی گئی ہے جو ہر ایک دیکھ سکے۔ پہلے کالم میں مختلف اداروں کے نام لکھیں جن کی گروپ نے نشاندہی کی ہو۔ پھر ریسورس پرسن سے پوچھیں کہ کسی اور ادارے کا نام بتائے جو رہ گیا ہو۔
  2. a grid with 4 labeled columns and 5 rows.
    ادارہ
    کردار(فی الوقت وہ کیا کرتا ہے؟)
    وہ کیا نہیں کرسکتا/ کیا نہیں کرتا؟ کیوں؟
    اسے مزید کیا کرنا چاہیے؟
    پولیس(کوئی پولیس افسر)
    میئر، سٹی کونسل، بزرگوں کی کونسل
    ڈاکٹر یا کوئی اور صحت کارکن
    جج یا عدالتی اہلکار
    عورتوں کی وزات کا اہلکار


  3. ۲۔ وضاحت کریں کہ گروپ تحقیقا ت کا مقصد یہ جاننا ہے کہ ہر ادارہ صنفی تشدد ختم کرنے کے لیے کیا کرتا ہے۔ ان سوالات کے جوابات دیں:
    •      عورتوں اور ہم جنس پرستوں وغیرہ پر تشدد سےنمٹنے کے لیے ہر ادارہ کیاکررہا ہے؟
    •      ادارے کیا نہیں کررہے ؟ وہ کیا نہیں کرسکتے؟ کیوں؟
    •      کون سی دیگر ایسی چیزیں ہیں جو انہیں اس قسم کے تشدد سےنمٹنے کے لیے کرنی چاہئیں؟

    گروپ سے چھوٹی چھوٹی ٹیمیں تشکیل دینے کو کہیں۔ وضاحت کریں کہ ہر ٹیم کسی ایک ادارے کے کردار اور فرائض کے بارے میں جاننے اور ان سوالوں کے جوابات کے لیے معلومات اکٹھا کرنے کی ذمے دار ہوگی۔ پھر آئندہ اجلاس میں وہ پورے گروپ کو اپنی معلومات سے آگاہ کرے گی۔
  4. ۳۔ تحقیقات کریں! ہر ٹیم کو انٹرویوز اور دیگر تحقیق کے ذریعے ضروری معلومات جمع کرنے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیمیں مختلف نقطہ ہائے نظر سمجھنے کے لیے ہر ادارے میں کئی افراد سے انٹرویو کرسکتی ہیں۔ وہ ایسی خواتین سے بھی بات چیت کرسکتی ہیں جنہوں نے تحفظ یا انصاف کے حصول کے لیے مختلف اداروں سے رجوع کیا ہو۔ حالیہ اخباری کہانیوں اور عدالتی ریکارڈز سے یہ سمجھانے میں مدد مل سکتی ہے کہ ادارے کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے۔
  5. ۴۔ جب ٹیمیں اپنی تحقیقات مکمل کرچکیں تو پورے گروپ کا اجلاس بلائیں جن میں ٹیمیں اپنی اپنی رپورٹ دیں۔ ہر ٹیم کو موجود رہنے اور ہر ایک کو سوالات کرنے کے لیے پورا وقت دیں۔
  6. a woman speaking to 10 other women.
    ہمارے گروپ نے یہ سیکھا کہ گھریلو تشدد سے عورتوں کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں۔ عورتوں کی وزارت کا کوئی اہلکار پولیس کو رپورٹ درج کراسکتا ہے۔ اس لیے یہ کام تشدد کا شکار ہونے والی عورت کے لیے خود کرنا ضروری نہیں۔
  7. ٥۔ خر میں گروپ سے کہیں کہ انہوں نے اس عمل سے جو کچھ سیکھا ہے اس پر غوروفکر کریں کہ نظامِ انصاف کو موثر طور پر کام کرنے میں مدد دینے کے سلسلے میں اگلے اقدامات کیا ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر گروپ اس بات پر توجہ مرکوز کرسکتا ہے کہ مزید لوگوں کو مقامی حکام کے اس فریضے سے آگاہ کیا جائے کہ انہیں عورتوں پر تشدد کے واقعات پر کارروائی کرنی چاہیے، یا ہوسکتا ہے گروپ ہم جنس پرستوں کے لیے پولیس کو جرم کی رپورٹ درج کرانا آسان بنانا چاہے۔ ایک منصوبہ تشکیل دینے میں اس طرح مدد مل سکتی ہے کہ اس بحث کے بعد طاقت کی نقشہ کشی کی سرگرمی انجام دی جائے۔

مقامی عدالتوں اور پولیس سے مل کر کام کریں

انصاف کے نظام عورتوں کو اس وقت زیادہ امداد مہیا کرسکتے ہیں جب جج، وکلا، عدالتی حکام اور پولیس افسران یہ بات تسلیم کریں کہ عورتوں اور ہم جنس پرستوں وغیرہ سے منصفانہ برتاؤ نہیں کیا جاتا اور یہ کہ حکام کو تمام لوگوں کے حقوق کے دفاع اور تحفظ کے لیے کام کرنا چاہیے۔ نظام کو بہتر بنانے کی کوششوں میں ان حکام کو شامل کرنے میں اکثر وقت لگتا ہے، مختلف حکمت عملیاں اختیار کرنی پڑتی ہیں اور بہت سے اجلاس منعقد کرنے ہوتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ آپ کو نظام انصاف میں ایسے افراد کو تلاش کرنے کے لیے علاقائی رہنماؤں سے مل کر کام کرنا پڑےجن سے یہ امید ہو کہ وہ تجاویز سنیں گے اور حمایت کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو پتہ چلے کہ بعض حکام اپنے رویّے تبدیل نہیں کریں گے۔ ایسی صورت میں آپ کو انہیں ہٹانے کی تحریک شروع کرنی چاہیے۔

نظامِ انصاف کو بہتر بنانے کے طریقوں کی چند مثالیں یہ ہیں:

a female police officer meeting with 2 woman in an office.

خواتین پولیس یونٹ۔ عورتیں اکثر جنسی زیادتی یا گھریلو تشدد کے واقعے کے بارے میں مرد پولیس افسر سے بات کرنے میں دشواری محسوس کرتی ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں برازیل میں خواتین کی انجمنوں نے صرف خواتین پر مشتمل پولیس یونٹوں کے قیام کا مطالبہ کیا۔ خواتین پر مشتمل اولین یونٹ 1985ء میں قائم کیے گئے اور اب بہت سے ممالک میں انہیں ماڈل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ سماجی کارکن اکثر پولیس کے ساتھ کام کرتے ہوئے عورتوں کو ان کے حقوق سمجھانے، فیصلے کرنے اور صحت کی دیکھ بھال اور دیگر سہولتیں حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

صنفی تشدد کے حوالے سے تربیت یافتہ پولیس علاقائی کارکنان صنفی تشدد کے بارے میں تربیت بھی فراہم کرسکتے ہیں۔ کچھ پولیس افسران گھریلو تشدد یا ہم جنس پرستوں سے زیادتی کے خلاف قوانین پر عملدرآمد نہیں کراتے۔ وہ یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں کہ تشدد ہوتا ہے اور وہ خود بھی عورتوں سے زیادتی کرتے ہیں یا ہم جنس پرستوں کو دھمکاتے ہیں۔ پرانےرویوں اور تعصبات کو تبدیل کرنے کے لیے پولیس افسران کو نئے اندازِ فکر سیکھنے کے مواقع کی ضرورت ہے۔

a courtroom where a trial is taking place.

گھریلو تشدد کی عدالتیں۔ عورتیںاکثر حکام کو پُرتشدد ساتھی کے بارے میں مطلع کرنے سے ڈرتی ہیں کیونکہ وہ غذا اور پناہ کے لیے اپنے ساتھی کی محتاج ہوتی ہیں۔ اگر عورت کا ساتھی جیل بھیج دیا جائے تو عورت اپنے گھر یا دیگر وسائل سے محروم ہوسکتی ہے۔ اگر وہ جیل نہ بھیجا جائے تو اسے مزید زدوکوب کرسکتا ہے۔ گھریلو تشدد کی صورتِ حال میں پھنسی ہوئی عورتیں اکثر تشدد کی اطلاع دیتی ہیں لیکن اپنے ساتھی سے نجات نہیں پاسکتیں۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوسکتا ہے کہ بار بار عدالت میں مقدمات دائر کیے جاتے رہیں لیکن تشدد ختم نہ ہو۔ امریکا میں انصاف کے کئی مقامی نظاموں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تشدد کے خاتمے کی خصوصی عدالتیں قائم کی ہیں۔

یہ عدالتیں عورت کا مقدمہ دائر ہوتے ہی سماجی خدمات فراہم کرتی ہیں، جیسے رہائشی امداد اور روزگار کی تربیت۔ خواتین کو پُرتشدد صورتِ حال سے بچاؤ اور فرار کی راہوں کے منصوبے تیار کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ (دیکھیں تشدد سہنے والوں کو گھریلو تشدد سے بچانے میںمدد دیں)۔یہ عدالتیں تشدد کرنے والوں کے رویے کی نگرانی کے لیے عدالتی کارروائیوں کے دوران اور بعد میں عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ اس طرزِ عمل سے عدالتی کارروائیوں کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور تشدد سہنے والوں کو ہمیشہ کے لیے نظام انصاف او راپنے پُرتشدد تعلق سے نکلنے کا موقع ملتا ہے۔

بحالی پر مبنی انصاف۔ جب کوئی علاقائی گروپ گھریلو تشدد یا ہم جنس پرستوں سے زیادتی کے شکار افراد کو تشدد کرنے والوں کا سامنا کرنے اور ان سے گفت و شنید کرنے میں مدد دیتا ہے تو اسے بحالی پر مبنی انصاف کہتے ہیں۔ اس قسم کے محاسبے کے لیے حالات پیدا کرنے میں وقت لگتا ہے اور تربیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ اسی وقت موثر ترین ہوتا ہے جب برادری کی طرف سے بھرپور حمایت حاصل ہو۔

a woman speaking.
جنسی زیادتی واحد جرم ہے جس میں جرم کا شکا رہونے والی خود ملزم بن جاتی ہے۔
فریڈا ایڈلر، ماہر جرائم

زاد عدالتی نظام۔ بھارت کے چار شہروں میں بھارتیہ مسلم مہیلہ اندولن نے خواتین کے قانونی مسائل کے لیے اپنی عدالتیں قائم کی ہیں۔ ماضی میں طلاق اور بچوں کی تحویل کے مقدمات ریاستی نظام میں نمٹائے جاتے تھے یا شرعی عدالتوں کے ذریعے جو تمام مردوں پر مشتمل تھیں۔ یہ عدالتیں عورتوں کے حق میں بہت کم فیصلہ سناتیں اور اکثر عورتیں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے مالی امداد سے محروم رہ جاتیں۔ بھارتیہ مسلم مہیلہ اندولن ایسے قومی قوانین منظور کرانے کے لیے کام کررہی ہے جن سے اسلامی قوانین کے تحت خواتین کے لیے موجودہ تحفظات کو تقویت ملے اور ان خواتین کو قانونی سہارا بھی حاصل ہوسکے جو ریاستی عدالتی نظام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کریں۔

انسانی حقوق کے قوانین سے مدد مل سکتی ہے

انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کےتحت کسی شہری آبادی کے حملے کے دوران کیے گئے جنسی تشدد کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی ایک گروپ کو جو نقصان پہنچے گا وہ تمام لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ بہت سے گروپ مقامی عدالتوں اور حکومتوں سے انصاف کا مطالبہ کرتے وقت انسانی حقوق کے قوانین استعمال کرتے ہیں۔ مزید معلومات کے لیے دیکھیں ضمیمہ الف:عورتوں کے حقوق کی پیروکاری کےلیے بین الاقوامی قانون استعمال کریں

تشدد کے شکار افراد کو انصاف دلانے کے لیے منظم ہوں

پولیس کو تعلیم دینے ، متبادل عدالتیں قائم کرنے اور بحالی پر مبنی انصاف کے نظام تشکیل دینے کےلیے آپ کچھ بھی کریں، علاقے کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی پھر بھی ضرورت ہوگی۔ اگر آپ صنفی تشدد کے مسئلے کو سمجھنے اور عمل کرنےکے لیے مقامی آبادی کو منظم کرسکیں تو تشدد کا شکار افراد کو انصاف دلانے کے لیے آپ کے ہاتھ میں بہت اہم ہتھیار ہوگا۔ نچلی سطح پر آپ مضبوط ہوں گی تو- مثال کے طور پر ان ججوں کے خلاف تحریکیں چلا سکیں گی جو ہمیشہ عورتوں اور ہم جنس پرستوں وغیرہ سے امتیازی سلوک کرتے ہیں، اور ایسے ججوں کو تبدیل کرنے یا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کرسکتی ہیں۔ صحت مرکز کو تشدد کو ریکارڈ پر لانے کے لیے بہتر طریقے اپنانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر آپ علاقے کے لوگوں کو منظم بھی کرسکتی ہیں۔

many women and girls dancing. ۱۴فروری ٢٠۱۳ء کو ہانگ کانگ کی عورتیں ۲۰۷ممالک کے ایک ارب لوگوں کے ساتھ اکٹھا ہوئیں اور عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے اٹھیں اور رقص کیا۔ ’انصاف کے لیے ایک ارب کا اٹھنا ‘ کے بارے میں مزید معلومات کے لیے یہ ویب سائٹ دیکھیں: www.onebillionrising.org

تشدد کے خلاف عالمی تحریکوں سے منسلک ہوکر آپ اپنی تنظیم کو زیادہ طاقتور بنا سکتی ہیں تشدد کے خلاف عالمی تحریکوں سے منسلک ہوکر آپ اپنی تنظیم کو زیادہ طاقتور بنا سکتی ہیں اور میڈیا کی زیادہ توجہ حاصل کرسکتی ہیں۔ ’وی ڈے‘ عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد ختم کرانے کی ایک عالمی کوشش ہے جو آگہی بڑھانے کے لیے کام کرتی ہے، اس سلسلے میں رقم اکٹھا کرتی ہے اور تنظیموں کو تشدد کے خاتمے کے لیے متحرک کرتی ہے۔ اسی طرح ’ہوموفوبیا‘ (ہم جنس پرستی سے نفرت یا خوف)کے خلاف عالمی دن بڑے پیمانے پر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کا ایک اور موقع ہے ۔یہ دن ۱۷مئی کو منایا جاتا ہےکیونکہ 1990ء میں اسی تاریخ کو عالمی ادارۂ صحت نے ذہنی بیماریوں کی اپنی فہرست سے ہم جنس پرستی کو خارج کردیا۔ اس موقعے پر لوگ اپنی برادریوں، روزگار کی جگہوں اور خاندانوں میں ہم جنس پرستوں وغیرہ کے مسائل کے بارے میں آگہی میں اضافے کے لیے کام کرتے ہیں۔

بھارت میں احتجاجی مظاہروں میں عورتوں پر تشدد ختم کرنے کا مطالبہ

دسمبر ۲۰۱۲ء میں نئی دہلی، بھارت میں ایک مسافر بس میں چھ مردوں نے ایک ۲۳سالہ عورت پر حملہ کیا اور اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ عورت کے ایک مرد ددوست کو، جس نے اسے بچانے کی کوشش کی تھی، شدید زدوکوب کیا گیااور پھر اسے اور عورت دونوں کو بس سے باہر پھینک دیا گیا۔ اجنبی افراد نے انہیں سڑک کے کنارے پڑا پایا اور اسپتال لے گئے۔ عورت دو ہفتے بعد زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسی۔ حملے کی خبر بہت تیزی سے پہلے شہر اور پھر ملک بھر میں پھیل گئی۔ چند روز بعد دہلی اور دیگر شہروں میں ہزاروں مظاہرین اکٹھاہوئے اور سفاکانہ آبروریزی کے خلاف حکومت کی سست کارروائی پر احتجاج کیا اور بھارت میں جنسی تشدد کے سنگین مسئلے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

بھارت میں خواتین کی انجمنیں اور دیگر تنظیمیں برسوں سے جنسی زیادتی اور عورتوں کے خلاف تشدد کی تمام شکلوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ لیکن بہت بڑے پیمانے پر ہونے والے ان مظاہروں اور پولیس کی جانب سے ان پر پردہ ڈالنے کی کوششوں نے ان مسائل کی طرف میڈیا کی توجہ اس طرح مبذول کی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بیشتر مظاہرین نے بتایا کہ انھیں یا ان کے خاندان کے کسی فرد کے ساتھ جنسی ہراس اور آبروریزی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ وہ اپنی شکایات مسترد کیے جانے اور حملہ آوروں کو کوئی سزا نہ دلوا سکنے پر پہلے ہی سخت غم و غصے کا شکار تھیں لیکن انہیں پہلے کبھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ آواز اٹھا سکتی ہیں یا انصاف مانگ سکتی ہیں۔

a camerman filming protesters while a policeman threatens them; they carry signs reading: "Stop rape," "We want justice," and "No violence against women."

مردو خواتین دونوں نے عورتوں کے خلاف ان عام رویوں کی مذمت کرنے کے لیے مظاہروں میں شرکت کی جن کی بنیاد اس تصوّر پر ہے کہ عورتیں مرد کی جائیداد ہیں اور وہ جیسے چاہیں انہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ مظاہرین نے یہ بات واضح کردی کہ ہراس اور تشدد کا الزام ان پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔ دہلی میں مردوں کے ایک گروپ نے ایک دن کے لیے زنانہ لباس پہن کر خواتین کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیاتاکہ اس بات پر توجہ مبذول کرائی جاسکے کہ عورتوں سے سر عام کیا برتاؤ کیا جاتا ہے۔

نیا بھر کے لوگوں نے مظاہرین کا پیغام سنا۔ انہوں نے فوری گرفتاریوں، آبروریزی اور جنسی حملے کے مقدمات چلانے، صنفی جرائم کے لیے مضبوط قوانین اور نفاذ اور خواتین کے لیے محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ کا مطالبہ کیا۔

مقامی کارروائی کے ساتھ بین الاقوامی توجہ نے تبدیلی کے لیے دباؤ پیدا کیا۔ کئی ریاستی حکومتوںنے آبروریزی کے قوانین مضبوط بنائے اور نئی خدمات کی فراہمی کا وعدہ کیا۔ مرکزی حکومت نے قانون میں تبدیلی کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی مقرر کی۔ خواتین کے گروپوں میں اس وقت امید پیدا ہوئی جب کمیٹی کو پیش کی گئی ان کی بیشتر سفارشات حتمی رپورٹ میں شامل کرلی گئیں۔ لیکن جب حکومت نے ایک آرڈیننس منظور کیا جس میں رپورٹ کو نظر انداز کردیا گیا اور صنفی تشدد کی تمام شکلوں کی مذمت نہیں کی گئی تو انہیں مایوسی ہوئی۔ آرڈیننس کا مقصد مظاہروں کو ختم کرانا تھا لیکن اس سے مزید مارچ اور ریلیاں شروع ہوگئیں۔

بھارت کے لوگ صنفی تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اب جنسی زیادتی اور ہراس کے زیادہ واقعات کو سامنے لاتے ہیں۔ منظم گروپ حکومت پر بدستور دباؤ ڈال رہے ہیں کہ جنسی زیادتی اور ریپ کے خلاف قوانین کو مضبوط بنائے اور ان کے نفاذ میں بہتری لائے۔ ان اقدامات نے صنفی تشدد کے بارے میں خاموشی کے ماحول کی جگہ تبدیلی کی حمایت کا ماحول پیدا کیا ہے۔

صنفی تشدد کی طرف توجہ دلانا مشکل ہوسکتا ہے خصوصاً ایسے مقامات پر جہاں اسے بہت طویل عرصے سے برداشت کیا جارہا ہو۔ لیکن جب ہزاروں افراد آبروریزی اور جنسی تشدد کی مذمت کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں تو ٹیلی وژن، انٹرنیٹ او رموبائل فون کی وجہ سے یہ پوری دنیا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔جب خبریں نامکمل اور یکطرفہ ہوتی ہیں تب بھی ان سے آگہی میں اضافہ ہوتا ہے اور اس بارے میں بحث و مباحثے کا موقع پیدا ہوتا ہے کہ صنفی تشدد کے مسئلے سے مقامی یا قومی سطح پر کیسے نمٹا جائے۔