Hesperian Health Guides
باب نمبر ۶: صنفی تشدد ختم کرنا
ہیسپرین ہیلتھ ویکی > عورتوں کی صحت کا تحفظ عملی اقدامات کی کتاب > باب نمبر ۶: صنفی تشدد ختم کرنا
تشدد سہنا یا تشدد کا خوف کسی کی بھی زندگی کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم افسوس کی بات ہے کہ صنفی تشدد اتنا عام ہے کہ اسے اکثر ’معمول ‘ سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر عورتوں کو آبردریزی یا جنسی تشدد کا خوف رہتا ہے چاہے خود ان پر کبھی حملہ نہ ہوا یا اس خطرے کا سامنا نہ ہوا ہو۔ یہ خوف عورت کے وجود کا حصہ ہے۔ بہت سے مرد یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کرنا یا تشدد کی دھمکی دینا اس طاقت کو استعمال کرنے کا قابل قبول طریقہ ہے جس کا تعلق مردانگی کی توقعات سے ہے۔ یہ توقعات مرد کے وجود کا حصہ ہیں۔
جب لوگ صنفی تشدد کے بارے میں سوچتے ہیں تو عموماً جسمانی تشدد کا خیال آتا ہے، جیسے مارنا پیٹنا یا جنسی تشدد جیسے عصمت دری۔ تاہم صنفی تشدد میں وہ تمام طریقے شامل ہیں جن میں طاقت یا قوت کو عورتوں اور لڑکیوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے اور عام صنفی طریقوں پر عمل نہ کرنے والے مردوں کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
صنفی تشدد کیا ہے؟
کوئی بھی تشدد یا تشدد کی دھمکی جو عورتوں اور لڑکیوں پر صنفی کردار اور عورتوں کی کمتر حیثیت کو نافذ کرنے کے لیے استعمال کی جائے صنفی تشدد ہے۔ ہم جنس پرست عورتوں، ہم جنس پرست مردوں، دو جنسی افراد اورخواجہ سراؤں (LGBT)کو نقصان پہنچانا بھی صنفی تشدد کی ذیل میں آسکتا ہے کیونکہ ان کی زندگیاں مردانگی اور نسوانیت کے بارے میں بے لچک خیالات کے خلاف ہوتی ہیں۔ صنفی تشدد صرف جسمانی یا جنسی تشدد نہیں ہوتا بلکہ جذباتی اور معاشی بھی ہوتا ہے۔جب لوگ عورتوں اور ہم جنس پرستوں کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کی آزادی پر پابندی لگاتے ہیں، انہیں تعلیم اور منصفانہ اجرت سے محروم کرتے ہیں اور صنفی طاقت کے ذریعے یہ بات اپنے اختیار میں رکھتے ہیں کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں تو یہ بھی تشدد کی ایک قسم ہے۔
اکثر ایسا لگتا ہے کہ صنفی تشدد کسی ایک فرد کا فعل ہے-اس مرد کا جو اپنی بیوی کو مارتا پیٹتا ہے یا اس باس کا جو اپنی ملازمہ کو جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے۔ لیکن عام طور پر مجرم کو ایسا کرنے کی اجازت ہوتی ہے بلکہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ اس کے اردگردموجود لوگ اس پُرتشدد رویے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ صنفی تشدد سے نمٹنے کا مطلب صرف عورتوں اور ہم جنس پرستوں کے ساتھ مردوں کے پُرتشدد افعال کو بدلنا نہیں بلکہ قوانین، لوگوں کے عام رویوں اور ان روایات کو بدلنا بھی ہے جن میں صنفی تشدد کو نہ صرف جائز قرار دیا جاتا ہے بلکہ اس پر نوازا بھی جاتا ہے۔