Hesperian Health Guides
تشدد کے بارے میں آرٹ اور میڈیا کی مہرِ خاموشی ٹوٹ گئی
ہیسپرین ہیلتھ ویکی > عورتوں کی صحت کا تحفظ عملی اقدامات کی کتاب > باب نمبر ۶: صنفی تشدد ختم کرنا > تشدد کے بارے میں آرٹ اور میڈیا کی مہرِ خاموشی ٹوٹ گئی
صنفی تشدد کے بارے میں خاموش رہا جائے تو زیادتی کرنے والے مردوں کے لیے عورتوں اور ہم جنس پرستوں وغیرہ پر تشدد کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اگر ہم کھڑے نہ ہوں اور یہ نہ کہیں کہ عورتوں کے خلاف تشدد غلط ہے تو زیادتی کرنے والوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ان کا رویہ معمول کے مطابق اور قابل قبول ہے۔ ہماری خاموشی سے تشدد سہنے والوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ کسی کو ان کی یا ان کے درد کی پروا نہیں۔ اپنی برادری یا خاندان میں تشدد کے حوالے سے لوگوں کی آنکھیں کھولنے اور یہ کہنے کے بہت سے طریقے ہیں کہ ’بطور برادری ہم اس تشدد کے خلاف ہیں!‘
مقبول موسیقی، ریڈیو، ٹی وی او رانٹرنیٹ تشدد کے بارے میں آگہی بڑھانے کے پیغامات بہت سے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ کچھ مثالیں یہ ہیں:
بریک تھرو انڈیا نے ریڈیو، ویڈیو، پمفلٹس، بلیٹن بورڈز اور علاقائی اجلاسوں کے ذریعے ایک بہت بڑی میڈیا مہم شروع کی جس میں یہ پیغام دیا گیا کہ خواتین کو تشدد سے پاک زندگی کا حق ہے۔ مہم کے دوران لوگوں کو صنفی تشدد روکنے کے لیے اقدام کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ ایک میوزک ویڈیو اور ہِٹ البم، جس کا عنوان ’من کے منجیرے ‘ یا ’عورتوں کے خلاف تشدد ‘ تھا، لاکھوں کروڑوں افراد نے سنی یا دیکھی اور خاص طور پر نوجوانوں میں مقبول ہوئی۔ البم او رمیوزک ویڈیو ایک عورت کی سچی کہانی پر مبنی تھیں جو تشددکرنے والے شوہر کو چھوڑ کر اپنے بچوں کی پرورش کے لیے ٹرک ڈرائیور بن گئی۔
اس مہم میں بہت سی برادریوں نے اپنے گیت، دیگر میڈیا یا غیررسمی اقدامات تشکیل دیے۔مثال کے طور پر نوجوان لڑکوں کے ایک گروپ نے اپنے پڑوسی کو اپنی بیوی کی پٹائی کرنے سے روکنے کے لیے ہر رات اس کے گھر ٹی وی دیکھنے کا فیصلہ کیا۔
نکاراگوا میں ’پنٹوس ڈی انکوئنٹرو‘ آدھے گھنٹے کی ایک ہفتہ وار ٹی وی سیریز تیار کرتا ہے جس کا عنوان ’چھٹی حِس ‘ ہے ۔ اس میں جنسی تعلقات، جنسی ترجیحات ، نیز تشدد اور جنسی زیادتی کے موضوعات پر ڈرامے پیش کیے جاتےہیں۔ اس شو میں نوجوان افراد کے ایک گروپ کی روزمرہ زندگی دکھائی جاتی ہے جس میں وہ اپنے تعلقات کے مسائل سے نمٹتے ہیں۔ کہانیاں کئی کئی شوز پر مشتمل ہوتی ہیں جس سے وہ حقیقت سے زیادہ قریب اور پیچیدہ ہوجاتی ہیں نیز دلچسپی اور تجسس کا پہلو بھی پیدا ہوجاتا ہے۔.یوگنڈا میں ریزنگ وائسز علاقائی ریڈیو کے ذریعے عورتوں پر تشدد کے خلاف معلومات اور بحث کے پروگرام کرتا ہے۔ ان پروگراموں میں عورتوں کے لیے فلاحی خدمات کے بارے میں اعلانات بھی شامل ہوتے ہیں۔
نیوزلیٹر، ویب سائٹس اور رسالے، آرٹ اور شاعری کے نمونے پیش کرنے کے علاوہ صنفی تشدد کے بارے میں تجربات، خیالات، منظم ہونے کی حکمت عملیاں اور قارئین کے سوالات شامل کرسکتے ہیں۔ اس طرح معلومات فراہم کرنے سے نجی طور پر اور دنیا بھر کی مقامی آبادیوں تک امداد پہنچائی جاسکتی ہے۔
اسٹریٹ آرٹ، جیسے دیواری تصویریں اور گلی محلوں میں کھیلے جانے والے ناٹکوں سے لوگوں کو صنفی تشدد کے بارے میں سوچنے اور بات کرنے کی تحریک مل سکتی ہے۔ میکسیکو سٹی میں ایک آرٹ پروجیکٹ میں مردوں اور عورتوں کے مجسمے استعمال کیے گئے جیسے دکانوںمیں ملبوسات کی نمائش کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ مجسمے پارکوں، چوراہوں اور سب وے اسٹیشنوں میں اس طرح رکھے گئے کہ ڈرامائی مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ ان مناظر میں عورتوں پر تشدد ہوتے جبکہ مردوں کو جانے پہچانے ’مردانہ‘ انداز میں مختلف طریقوں سے تشدد کرتے دکھایا گیا تھا۔
بعض اوقات مجسمے اس طرح رکھے گئے تھے کہ صورت حال بالکل واضح تھی جیسے مرد عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے۔ بعض اوقات ان کا انداز علامتی تھا۔ مثال کے طور پرایک مرد عورت کے جسم کو گھور رہا تھا اور عورت کے جسم سے کھانے کے کانٹے باہر نکلے ہوئے تھے جیسے مرد گھورنے کے دوران عورت کو کھا رہا ہو۔ بعض مناظر مزاحیہ لیکن بیشتر ہولناک تھے۔ ایک میز پر کاغذ اور مارکر دستیاب تھے تاکہ رہگیر اپنے خیالات اور احساسات لکھ سکیں اور کاغذات کو ایک الگنی پر کلپ سے لگا سکیں جہاں دوسرے لوگ انہیں پڑھ کر تبصرہ کرسکیں۔
شراکتی ناٹک
دنیابھر کے گروپ صنفی تشددکی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے شراکتی ناٹک کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ گروپ تشدد سہنے والوں__ یا ان کا کردار ادا کرنے والوں__ کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی کہانیاں ناٹک کی شکل میں پیش کریں۔ اس کے بعد وہ تشدد کے بارے میں بحث کے دوران ناظرین کی رہنمائی کرتے ہیں۔ دیگر گروپ لوگوں کو ایسی کوئی صورت حال دکھاتے ہیں جن میں تشدد ہوتا ہے اور پھر ناظرین سے اس پر تبصرہ کرنے کو کہتے ہیں یا پوچھتے ہیں کہ اس میں کیا تبدیلی آئی ہے۔
جنوبی افریقہ اور دوسرے مقامات کے ایمبش تھیٹر میں ’سونکے جینڈر جسٹس نیٹ ورک‘ کے مردو خواتین شامل ہوتے ہیں جو سرِ عام، جہاں کوئی ایسی چیز دیکھنے کی توقع نہ کررہا ہو، جذباتی یا زبانی تشدد کے مناظر دکھاتے ہیں۔جب ہجوم یہ دیکھنےکے لیے اکٹھا ہوتا ہے کہ کیا ہورہا ہے تو گروپ اس موقعے کو استعمال کرتے ہوئے تشدد اور آبروریزی کے بارے میں بات چیت کرتا ہے۔ اس کے بعد اداکار پھر اس منظر کی ادائیگی کرتے ہیں اور ناظرین سے کہتے ہیں کہ جب انہیں کسی بات سے اختلا ف ہو یا وہ کوئی کم پُرتشدد عمل تجویز کرنا چاہیں تو زور سے ’ٹھہرو!‘ کہیں۔
آرٹ کے ذریعے تشدد کے بارے میں سچی کہانیاں سنائیں
تشدد کے ذاتی تجربات سے دوسروں کو آگاہ کرنے سے اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرانے اور بدنامی کے احساس کے خلاف کام کرنے میں مدد ملتی ہے اور اس کے نتیجے میں تشدد سہنے والے افراد مظلوم و مجروح بننے کے بجائے بچ نکلنے والے بن جاتے ہیں۔ تشدد سے متعلق آرٹ کو دیکھنے سے دوسروں کو اپنے تجربات کے بارے میں غوروفکر کرنے، اور تشدد سہنے والوں کو ہمدردی کی نظر سے دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ لوگوں میں ناانصافی کے خلاف بولنے کاجذبہ پیدا کرنے کے لیے آرٹ ایک مضبوط طریقہ ہے۔
پوسٹر سازی کے مقابلے، شاعری کے مقابلے اور آرٹ کی نمائشیں بچوں اور بڑوں میں تحریک پیدا کرسکتی ہیں کہ وہ صنفی تشدد کے بارے میں اپنے خیالات اور احساسات دوسروں تک پہنچا سکیں، چاہے انہوں نے یہ تشدد دیکھا ہو، کسی سے سنا ہو یا اس کا تجربہ کیا ہو۔ اگر نام کے بغیر مزید لوگوں کو شریک ہونے کی ترغیب ملے تو آرٹ کو ناموں کے بغیر دکھایا جاسکتا ہے۔
کامکس کی کتابیں حقیقی زندگی کی ایسی صورت حال دکھا سکتی ہیں جن سے لوگوںمیں یہ سوچ پیدا ہو کہ صنفی تشدد کیوں ہوتا ہے، کہانی کے کردار اس کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں اور معاملات کیونکر مختلف ہوسکتے ہیں۔
لائبیریا میں تشدد اور جنسی زیادتی کے بارے میں ’آنکھوں دیکھا ‘کی وڈیوز
لائبیریا، مغربی افریقہ کی ۱۴سالہ خانہ جنگی کے دوران فوجیوں نے ایک گروپ کو دوسرے کے خلاف ابھارنے کے لیے عورتوں پر جنسی تشدد کا استعمال کیا۔ فوجیوں نے ہزاروں عورتوں اور لڑکیوں کی آبروریزی کی۔ ۲۰۰۳ء میں جنگ ختم ہونے کے بعد بھی جنسی تشدد نہیں رکا۔ لڑکیوں کی زبردستی بہت کم سنی میں شادیاں کی گئیں۔ بہت سے مردوں کا خیال تھا کہ فرماں برداری نہ کرنے والی بیوی کو زدوکوب کرنا جائز ہے اور جنسی زیادتی عام تھی۔ بعض عورتیں جنسی تشدد سے تحفظ کے لیے بات کرنا چاہتی تھیں لیکن بیشتر لوگ اس بات سے منکر تھے کہ کوئی مسئلہ ہے۔
جنگ سے متاثرہ علاقوں میں عورتوں کےخلاف تشدد کے بارے میں مقامی برادری میں بحث شروع کرنے کے لیے پروجیکٹ ’آنکھوں دیکھا ‘نے مردوں اور عورتوں کی ٹیموں کو صنفی تشدد اور تشددسہنے والوں کو خدمات کی فراہمی کے بارے میں مختصر فلمیں تیار کرنے کے لیے وڈیو کیمرے استعمال کرنے کی تربیت دی۔ان وڈیوزمیں مقامی آبادیوں کے افراد نے اداکاری کی۔ ان میں دکھایا گیا کہ عورتوں اور لڑکیوں کو کس کس طرح نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ان میں رسوم و رواج، جیسے کمسنی میںجبری شادی، جنسی زیادتی اور آبروریزی اور جسمانی تشدد بھی شامل تھا۔ جب یہ وڈیوز مقامی آبادی میں دکھائی گئیں تو ان مسائل کے بارے میں بحث شروع ہوئی جن پر سرعام گفتگو نہیں ہوتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد بہت سی عورتوں اور لڑکیوں نے حملوں کے بارے میں بتانے اور مشاورت کے لیے سامنے آنا شروع کردیا۔
تشدد سہنے والی خواتین، چاہے وہ ان وڈیوز کی تیاری میں شریک ہوں یا انھوں نے صرف وڈیوز دیکھی ہوں، اب یہ کہتی ہیں کہ اب وہ خود کو تنہا محسوس نہیں کرتیں اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کے لیے خود کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہراتیں۔ اب وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان میں اور دوسری عورتوں میں، جن کی اسی طرح کی کہانیاں ہیں ،کیاکیا مشترک ہے۔لائبیریا میں اپنی کامیابی کی وجہ سے ’آنکھوں دیکھا ‘ کے پروجیکٹ دوسرے کئی ممالک میں بھی کیے گئے ہیں۔