Hesperian Health Guides

صنفی تشدد کئی پہلوؤں سے صحت کو نقصان پہنچاتا ہے

اس باب میں:

a man hitting a disabled woman.

ہر تین خواتین میں سے کم از کم ایک عموماً کسی جاننے والے مرد کے ہاتھوں پٹائی، جبری جنسی فعل یا کسی اور طریقے سے جسمانی زیادتی کا شکار بنائی گئی ہے۔اس قسم کے جسمانی تشدد کے صحت پر اثرات ہوتے ہیں جن میں شدید درد،مستقل معذوری اور زخمی ہونا شامل ہیں جیسے ٹوٹی ہوئی ہڈیاں، جلنا، آنکھیں سوجنا، کٹنا اور خراشیں لگنا۔

حمل کے دوران پٹائی ہونے کی وجہ سے بہت سی عورتیں اسقاط کا شکار ہوتی ہیں۔ سردرد، دمے، پیٹ کے درد اور اعصاب کے درد کی شکایتیں اس زیادتی کے بعد برسوں تک جاری رہ سکتی ہیں۔

a man forcing a woman to have sex.
جنسی زیادتی سے جنسی صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں جن میں غیرارادی حمل، جنسی امراض، جنسی عمل کا خوف، جنسی عمل کے دوران تکلیف اور خواہش کا ختم ہوجانا شامل ہیں۔ بچپن میں جنسی زیادتی کی وجہ سے زندگی کے بعد کے ادوار میں الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور صحت مندانہ جنسی تعلق سے بھی خوف لگتا ہے۔
تشدد کی بعض قسموں میں ظاہری طور پر کوئی زخم نہیں آتا لیکن پھر بھی کئی طریقوں سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی عورت کو ایسی حیثیت اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے جس میں اس کے حقوق کم ہوںتو شادی سے متعلق قوانین اور روایات بھی تشدد کی ایک قسم ہوسکتے ہیں۔ اگر ازدواجی زندگی اسے خوراک اور صحت کی نگہداشت سے محروم کرتی ہے، یا اسے اس کی مرضی کے بغیر اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ کب او رکیسے جنسی فعل کرنا ہے، یا حاملہ ہونا ہے یا نہیں، تو یہ کمتر حیثیت اس کی صحت پر برا اثر ڈالتی ہے۔ اگر یہ کمتر حیثیت اسے تعلیم سے محروم کرتی ہے، اسے گھر سے باہر کام کرنے سے روکتی ہے یا کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور کرتی ہے تو یہ حیثیت بالواسطہ طور پر اس کی صحت پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ ایسے واقعات عورتوں کو اکثر پُرتشدد حالات میں رہنے پر مجبور کرتے ہیں جو ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔
a woman holding out her hand to a man who stands with arms crossed.
عورت کو اپنے اور اپنے بچوں کے خرچ سے محروم کرنا معاشی تشدد کی ایک قسم ہے۔
a woman looking down as a man shakes his finger at her.
جذباتی تشدد بھی نقصان دہ ہے جیسے مرد کا عورت کی توہین و تذلیل کرنا، شرمندہ کرنا یا گھر سے نکلنے یا خاندان سے ملاقات کرنے یا دوستوں سے بات کرنے سے منع کرنا۔ یہ زیادتی عورت میں یہ احساس پیدا کرسکتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتی یا کسی تکلیف دہ یا غیرصحت مندانہ صورتحال سے نجات نہیں پا سکتی۔ ممکن ہے وہ علاج کے لیے کوشش نہ کرے اور طویل عرصے تک جذباتی مسائل برداشت کرتی رہے۔
عورت کی توہین کرنا اور خاندانی مسائل کا ذمے دار عورت کو قرار دیناجذباتی تشدد کی ایک قسم ہے جس سے دُور رس نقصان ہوتا ہے۔

تشدد اور زیادتی سے ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جیسے مستقل خوف، مایوسی، تحریک کا فقدان، عزتِ نفس سے محرومی، شرم، خود کو الزام دینا اور کھانے اور سونے کے مسائل۔ تشدد اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساسات سے نمٹنے کے لیے عورتیںدوسروں سے ملنے سے کتراتی ہیں، منشیات یا شراب استعمال کرتی ہیں، متعدد افراد کے ساتھ جنسی فعل میں ملوث ہوجاتی ہیں، اپنے آپ کو زخمی یا خودکشی کرلیتی ہیں۔


زَن کُشی کا مطلب ہے کسی عورت کو ارادۃً قتل کرنا۔ اس میں کسی عورت کا اس کے شوہر یا سابق شوہر کے ہاتھوں قتل بھی شامل ہے جو عموماً اس قسم کے تعلق کے نتیجے میں ہوتا ہے جس میں مسلسل زیادتی ہورہی ہوتی ہے۔ ایک اور قسم کی زن کُشی ’غیرت کے نام پر قتل ‘ ہے جس میں عورت کا کوئی رشتے دار نامناسب جنسی یا سماجی رویہ اختیار کرنے کے الزام میں اسے قتل کردیتا ہے اور بعض اوقات جنسی زیادتی کیے جانے پر بھی عورت کو قتل کردیا جاتا ہے۔بھارت میں جہیز کے تنازعات پر سسرال میں ہر سال ہزاروں عورتیں قتل کردی جاتی ہیںاور بے شمار عورتیں ایسے مردوں کے ہاتھوں حملے، جنسی زیادتی اور قتل کا شکار ہوتی ہیں جن کی کبھی شناخت نہیں ہوپاتی، خصوصاً ان مقامات پر جہاں بہت سے مرد منشیات کی خریدوفروخت اور مسلح تنازعات میں ملوث ہیں۔

صنفی تشدد سے سب کو نقصان ہوتا ہے

تشدد سے نہ صرف اس کا شکار ہونے والے فرد پر اثر پڑتا ہے بلکہ اس سے سب کو نقصان ہوتا ہے۔ صنفی تشدد سے خاندانوں، اسکولوں، عام مقامات بلکہ صحت مراکز تک میں احترام پر مبنی اور صحت مندانہ تعلقات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ جب تک لوگ یہ سمجھتے رہیں گے کہ مرد عورتوں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں__ اور یہ کہ عورتیں اس لائق ہیں کہ انہیں مارا پیٹا جائے، شرمندہ کیا جائے اور حقوق و وسائل سے محروم رکھا جائے__ تب تک اس ناانصافی سے ہر ایک کو کسی نہ کسی طریقے سے نقصان پہنچتا رہے گا۔

تشدد معاشرے کو بچوں، خاندانوں اور صحت مند اور برادری میں بھرپور انداز میں شریک ہونے والی خواتین سے محروم کردیتا ہے۔جو عورتیں خوفزدہ ہوتی ہیں یا خاموش کردی جاتی ہیں وہ مقامی آبادی میں عورتوںکی صحت اور حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے فعال کردار ادا نہیں کرسکتیں۔

صنفی تشدد سے یہ نقصان دہ تصور تقویت پاتا ہے کہ مردانگی کا مطلب پُرتشدد برتاؤ کرنا ہے۔ اس سے مردوں کو پُرتشدد انداز اختیار کرنے کی ترغیب ملتی ہے جس سے مزید زخمی ہونے کے واقعات اور اموات کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔

صنفی تشدد سے بچوں کو نقصان پہنچتا ہے

a boy pushing a girl.

جن بچوں کو جسمانی تشدد یا گالم گلوچ کانشانہ بنایا جاتا ہے یا جو مسلسل اس قسم کے واقعات دیکھتے ہیں، ان میں بے بسی، غصے، اداسی، شرم یا جرم کے شدید احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ احساسات ان میں دوسروں کے ساتھ جارحانہ رویے یا بدتمیزی کو جنم دیتے ہیں۔ جو تشدد انہوں نے دیکھا ہے وہ اس کی تقلید کرتے ہیں۔ ایسےبچوں میں ڈراؤنے خواب اور دیگر قسم کے خوف،بستر میں پیشاب کرنا اور جذباتی مسائل عام ہیں جو ذہنی صحت کے دیرینہ مسائل بن سکتے ہیں۔ بعض بچے خاموش اور الگ تھلگ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ کچھ کہنے یا کرنے کے نتیجے میں ان پر تشدد ہوسکتا ہے یا وہ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں کسی سے کچھ کہنے سے ڈرتے ہیں۔

جن خاندانوںمیں تشدد ہوتا ہے ان کے بچوں کے پروان چڑھنے اور سیکھنے کی رفتا رکم ہوتی ہے۔ انہیں اسکول میں پڑھائی پر توجہ برقرار رکھنے میں دشواری پیش آتی ہے اور وہ زیادہ بیمار پڑتے ہیں جیسے پیٹ کا درد، سر دور اور دمہ۔ تشدد کے نتیجے میں بہت سے بچے زخمی او رہلاک ہوجاتے ہیں۔


HAW Ch6 Page 145-2.png
لڑکیاں اورلڑکے اپنے اردگرد موجود بالغ افراد سے صنفی کردار سیکھتے ہیں۔ اگر مرد عورتوں کے ساتھ پُرتشدد رویہ اختیار کریں یا بدکلامی کریں اور پھر اس کا ذمے دار عورت کو قرار دیں تو لڑکے بھی یہی سیکھ جاتے ہیں۔ اگر عورتیں خود کو الزام دیں تو لڑکیاں بھی یہی محسوس کرنے لگتی ہیں۔ لیکن عورت کے خلاف تشدد کبھی اس کی غلطی نہیں ہوتی۔

ڈراما: صنفی تشدد سے ہر ایک متاثر ہوتا ہے دیے گئے ڈرا مے سے کسی گروپ کو صنفی تشدد کے ہر ایک کے حق میں نقصانات کا جائزہ لینے اور بحث کرنے میں مدد مل سکتی ہے، خواہ وہ تشدد کا شکار ہونے والا فرد ہو، اسے دیکھنے والا ہو یا تشدد کرنے والا۔

a man speaking while thinking about his father hitting his mother.
میں نے بچپن سے اپنے باپ کو ماںکی پٹائی کرتے دیکھا۔ جب میں نے تشدد کے بارے میں سیکھا تو میری سمجھ میں آیا کہ اس سے سبھی کو کس قدر نقصان ہوتا ہے۔ میں نے اپنی بیوی کی پٹائی کرنا چھوڑ دی۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ اس بارے میں اپنی بیوی سے کیسے بات کروں۔ بہت وقت لگا جب اس نے مجھ پر اعتبار کرنا شروع کیا۔

صنفی تشدد پر بحث کے لیے ڈراما

ڈرامے کے شرکأ حقیقی زندگی کے کردارادا کرتے ہیں۔ اس سے لوگوں کو ان موضوعات پر بحث کرنے میں مدد ملتی ہے جنہیں وہ نجی یا ذاتی سمجھتے ہیں، جیسے خاندان میں مردوں اور عورتوںکی حیثیت اور تعلق۔ اس باب کے پر صنفی تشدد کے بارے میں ڈرامے دیے گئے ہیںجس سے لوگوں کو اس بارے میں سوچنے میں مدد ملے گی کہ تشدد کیوں ہوتا ہے اور اس سے کیا کیا نقصانات ہوتے ہیں۔ ڈراموں پر بحث سے گروپ کو رویّوں، رواجوں اور مردوں اور عورتوں کے باہمی طرز عمل کا جائزہ لینے اور صنفی تشدد کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کے طریقے سوچنے اور تشدد کو جواز فراہم کرنے والے تصورات اور روایات کو بدلنے میں مدد مل سکتی ہے۔

یہ سرگرمیاں الگ الگ یا ایک سلسلے کی شکل میں انجام دی جاسکتی ہیں۔ آپ چاہیں تو پہلے گروپ کے ساتھ صنفی کرداروں پر بحث کرسکتی ہیں

یہ سرگرمیاں مردوں اور عورتوں دونوں کے ساتھ انجام دینا زیادہ موثر رہتا ہے۔ مردوں سے عورتوں اور عورتوں سےمردوں کے کردار ادا کروائے جائیں تو لوگوں کو نئے انداز میں عدم مساوات اور صنف کے بارے میں سوچنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ڈرامے کی تیاری

منظر نامے کی پیشگی تیاری کریں۔ ایسے مناظر خیال میں لائیںجو قابل یقین ہوں لیکن ان میں بہت زیادہ تشدد یا پریشان کن پہلو نہ ہوں۔ ڈراما اس صورت میں حقیقت کے زیادہ قریب ہوگا کہ آپ کچھ سامان اور ملبوسات کا اہتمام کرلیں جو لوگ کردار ادا کرتے وقت استعمال کرسکیں۔ درج ذیل منظر ناموں کےلیے جن چیزوں کی ضرورت ہوگی ان میں خریداری کے تھیلے، نیکٹائی، مردانہ ہیٹ، سلائی مشین، ٹافیاں اور زیورات شامل ہیں۔

نمونے کے چند مناظر یہ ہیں:

منظر نمبر ١

a man hitting a woman while another woman and 2 children watch in fear.

کردار
زیادتی کرنے والا: شوہر
زیادتی سہنے والی: بیوی
دیکھنے والے: بچے اور بیوی کی چھوٹی بہن

بیوی برادری کے ایک اجلاس میں شرکت کے بعد دیر سے گھر آتی ہے۔ اس کے شوہر کا دن بہت برا گزرا ہے اور وہ پہلے ہی غصے میں ہے کیونکہ گھر پہنچنے پر کھاناتیارنہیں تھا۔ بیوی کی چھوٹی بہن بچوں کی دیکھ بھال کررہی تھی۔ یہ سب بیوی کے گھر پہنچنے کے منتظر ہیں۔ آپ کے خیال میں اب کیا ہوگا؟

منظر نمبر ٢

illustration of the below: a woman entering a man's office.

کردار
تشدد کرنے والا: کارخانے کا مالک
تشدد سہنے والی: ملازمہ
دیکھنے والے: دیگر ملازمین جو پہلے اپنی اجرت وصول کرتے ہیں اور رخصت ہوجاتے ہیں


ایک نوجوان عورت چھوٹی سی گارمنٹ فیکٹری میں ایک ہفتے تک کام کرتی رہتی ہے۔ جب وہ اپنی اجرت لینے جاتی ہے تو مالک بعد میں آنے کا حکم دیتا ہے۔ وہ اس سے انتظار کرواتا ہے حتیٰ کہ ہر شخص فیکٹری سے رخصت ہوجاتا ہے اور پھر وہ اسے تنہائی میں اپنے دفتر میں بلاتا ہے۔ آپ کے خیال میں اب کیا ہوگا؟

منظرنمبر ٣

illustration of the below: 3 boys following a girl who is wearing pants.

کردار
تشدد کرنے والا: نوجوان لڑکا
تشدد سہنے والی: نوجوان لڑکی
دیکھنے والے: دوسرے نوجوان لڑکے

ایک نوجوان لڑکی روایتی زنانہ ملبوسات کے بجائے مردانہ کپڑے پہننا پسند کرتی ہے۔ اسکول کی چھٹی کے بعد گھر واپس جاتے ہوئے وہ نوجوان لڑکوں کے ایک گروپ کے پاس سے گزرتی ہے جو اس پر آوازے کستے ہیں۔ ان میں سے ایک اس کا تعاقب شروع کردیتا ہے۔ آپ کے خیال میں اب کیا ہوگا؟

HAW Ch6 Page 147-3.png
اس قسم کے ڈرامے جن میں تشدد دکھایا جائے بعض شرکأ کے لیے مشکل یا پریشان کن ہوسکتے ہیں، خصوصاً جب ان میں ایسے تشدد کا حوالہ ہو جو وہ خود سہہ چکے ہوں یا تشدد کی ایسی قسمیں ہوں جن پر انہوں نے کبھی غور نہیں کیا، جیسے ہم جنس پرستوں کے خلاف پُرتشدد رویہ یا بیوی کی رضا مندی کے بغیر جبری جنسی ملاپ۔

سرگرمی ڈراما: صنفی تشدد سے ہر ایک متاثر ہوتا ہے

  1. ۔١ شرکأ کو پانچ پانچ کے گروپوں میں تقسیم کردیں۔ ہر گروپ سے مختصراً ایک صورت حال بیان کریں، جیسی پچھلے صفحات پر دی ہوئی ہیں، جو تشدد کی طرف لے جائے۔(آپ چاہیں تو یہ ہدایت دے سکتی ہیں کہ ڈرامے میں انتہائی تشدد نہ دکھائیں)۔ شرکأ سے کہیں کہ پانچ منٹ کا ایک ڈراما تیار کرنے میں پندرہ بیس منٹ صرف کریں جس میںمنظر نامہ اور ان کے خیال میں جو کچھ ہوگا وہ پیش کیا جائے۔ ہر ایک کو کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنے کی ترغیب دیں۔

  2. ٢۔ ہر گروپ سے اپنی اپنی صورت حال کا ڈراما پیش کرنے کو کہیں۔

  3. ٣۔ جب ہر گروپ اپنا ڈراما پیش کرچکے تو گروپوں سے کہیں کہ اپنا سامان اور ملبوسات ایک طرف رکھ دیں۔ پھر شرکأ سے کہیں کہ اپنے کرداروں کی بنیاد پر ’تشدد سہنے والوں ‘، ’تشدد کرنے والوں ‘ اور ’دیکھنے والوں ‘ پرمشتمل تین نئے گروپ بنائیں۔تینوں گروپوں کے شرکأ سےکہیں کہ انہیں یہ کردار ادا کرتے وقت کیسا لگا۔

  4. ۴۔ تینوں گروپوں سے کہیں کہ وہ اس بارے میں اپنےخیالات ظاہر کریں کہ ان کے کرداروں پر تشدد نے کیا اثر ڈالا۔ اس سے کیا نقصان ہوا؟
    2 groups facing each other; 1 person in each group speaks.
    ’تشدد کا شکار ہونے والی ‘ کے طور پر میں اجلاسوںمیں شرکت کرنا چھوڑ سکتی ہوں۔
    ’دیکھنے والے ‘کے طور پر میں نے یہ محسوس کیا کہ جب بچے بڑوں کو تشدد کرتے دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ یہ صحیح طریقہ ہے۔

  5. ٥۔ شرکأ سے پوچھیں کہ انہیں دوسرے گروپ کے ڈرامے دیکھ کر کیا محسوس ہوا۔ ان پر کیا اثر ہوا؟

  6. ٦۔ آخر میں پورے گروپ سے کہیں کہ ڈراموں میں صنفی تشدد سے عورتوں کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں گفتگو کریں۔ ڈرامے میں دکھائے گئے تشدد کے بچوں، خاندان، دیگر دیکھنے والوں اور برادری پر ہونے والے اثرات کے بارے میں پورے گروپ کے خیالات کا خلاصہ بیان کریں۔ اس کے بعد آپ صنفی تشدد کے اسباب پر بحث جاری رکھ سکتی ہیں (صنفی تشددکے اسباب کا جائزہ لینا پر دی گی سرگرمی استعمال کریں یاتبدیلی کے بارے میں سوچنے کے لیے ’خوشگوار انجام ‘ والے ڈرامے سرگرمی کو استعمال کرتے ہوئے اس بارے میں بحث کریں کہ تشدد روکنے کے لیے کرداروں میں کیا تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

سرگرمی گوبھی چور

گروپ مباحث اور سرگرمیاں ختم کرتے وقت ، خصوصاً مشکل موضوعات پر ، ہرایک سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اس نے کیا سیکھا ہے، اس مسئلے کے بارے میں وہ کیا محسوس کرتی ہیں اور تبدیلی کے لیے وہ کیا کرنا چاہیں گی۔ علاوہ ازیں تمام شرکأ کو جانچنے اور اپنا ردعمل ظاہر کرنے کا موقع دینا ضروری ہے۔ یہ سرگرمی غوروفکر اور جانچ کے اس عمل میں ہر ایک کو شامل کرنے کا دلچسپی سے بھرپور طریقہ ہے۔
تیاری کے لیے: کاپی کے صفحات، ماسکنگ ٹیپ اور قلم ہونے چاہئیں۔ گروپ کے سائز کے لحاظ سےذیل میں درج جانچ کےچار سوالات ایک بار یا کئی بار کاپی کے الگ الگ صفحات پر لکھیں:

  • کسی ایک چیز کا نام لکھیں جو ہم نے انجام دی۔
  • کسی ایک چیز کا نام لکھیں جو آپ نے سیکھی۔
  • کوئی ایسی بات بتائیں جو آپ کو پسند آئی اور کوئی ایسی بات بتائیں جو پسند نہیں آئی۔
  • جو کچھ آپ نے سیکھا ہے اس کے بارے میں کیا کریں گی؟

  1. ١۔ سرگرمی یا ورکشاپ کے خاتمے پر گروپ سے پوچھیں کہ ان کے خیال میں زیرِ بحث آنے والےموضوعات کو سمجھنے کے لیے کون سے سوالات اہم ہیں۔ ہر سوال کو کاپی کے الگ صفحے پر لکھیں۔

  2. illustration of the below: paper cabbage.
  3. ٢۔ آخری جانچ کے سوال کے صفحے (نمبر ۴) کو موڑ تروڑ کر ایک ’گوبھی ‘ بنائیں اور پھر اس کے گرد اوراق کی تہیں لپیٹ دیں۔ اس کے بعد وہ صفحے لپیٹیں جن میں گروپ کے تجویز کردہ سوالات ہوں، کوئی جانچ کا سوال ہو اور کچھ دلچسپ سوالات ہوں جیسے ’رقص کرکے دکھاؤ ‘ یا ’گانا سناؤ ‘۔ اس وقت تک کاغذ پر تہیں لپیٹتے رہیںجب تک اصلی سائز کی گوبھی نہ بن جائے۔ جانچ کے سوالات کو الٹی ترتیب میں رکھیں تاکہ جب گوبھی چھیلی جائے تو ان کی ترتیب ١، ٢، ٣، ۴ ہو۔

  4. ٣۔ موسیقی یا تالیاں بجائیں اور شرکأ سے کہیں کہ گوبھی کو ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل کی جائے۔ جب موسیقی رکے تو جس کے ہاتھ میں گوبھی ہوگی وہ گوبھی چور ہوگی اور ایک پتّہ چھیل کر سوال کا جواب دے گی۔ یہ عمل جاری اس وقت تک رکھیں جب تک تمام پتّے چھیلے نہ جاچکیں۔

    نوٹ:شرکأ جو کچھ کہیں وہ آپ ایک بڑے سائز کے کاغذ پر لکھ سکتی ہیں جو ہر ایک کو نظر آئے یا جو کچھ ہر ایک کہے سب کو سنائی دے۔ جو کچھ ہر ایک کہتی ہے اس کے بارے میں سوچنے سے آپ اس بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں کہ ورکشاپ میں کون سی چیز موثر ترین تھی اور اگلی بار اسے کیسے بہتر بنایا جائے۔