Hesperian Health Guides

مرد تشدد روکنے میں مدد دے سکتے ہیں

اس باب میں:

عورتیں تنہا اپنے خلاف تشدد نہیں رکوا سکتیں۔ خواہ کتنی ہی عورتیں پُرتشدد تعلقات ترک کردیں، ایک دوسرے کی مدد کریں یا قانون تبدیل کرنے کی کوشش کریں، صنفی تشدد اسی وقت رکے گا جب مرد اس کی مخالفت کریں گے اور ایک دوسرے کو بدلنے میں مدد دیں گے۔ عورتوں سے زیادہ مرد لڑکوں کو ’مرد بننا ‘ سکھاتے ہیں۔ باپ بیٹوں کو یہ دکھاتے ہیں کہ عورتوں اور لڑکیوں سے کیسا برتاؤ کرنا ہے۔ طاقت اور اثرورسوخ رکھنے والے لوگ__ جج، سیاستداں، پولیس افسر، ڈاکٹر__ عموماًمرد ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ متحد ہوجاتے ہیں تو مردوں سے مختلف عمل کی توقع کرنا اور عورتوں کےتحفظ اور مدد کی پالیسیاں اور قوانین بنانا ممکن ہوجاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بیشتر مرد صنفی تشدد کے رویوں اور خیالات سے اتفاق نہیں کرتے لیکن پھر بھی اسے چیلنج کرنے یا روکنے کے لیے بہت سے مرد کچھ نہیں کرتے۔ کچھ مرد اپنے تعلقات میں تشدد کو استعمال نہیں کرتے اور کچھ تشدد کی روک تھام کے لیے کام کررہے ہیں لیکن انہیں کسی کی مدد حاصل نہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو اس عمل میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن انہیں پتہ نہیں کہ یہ کام کیسے کریں۔ اکثر مرد بھی تشدد سہتے ہیں لیکن عورتوں کی طرح انہیں بھی وہ مدد مہیا نہیں ہوتی جو ان کے زخم بھردے۔

اوکلینڈ کے مردوں کے پروجیکٹ کے اسباق

جب پال کیول، اوکلینڈ کے مردوں کے پروجیکٹ کی کہانی سناتا ہے تو ان کے جذبے کا سہرا آبروریزی اور گھریلو تشدد کے بارے میں آگاہی بڑھانے کی عورتوں کی کوششوں کے سر باندھتا ہے۔ پال عورتوں کے گروپوں سے سیکھی گئی تکنیکیں بیان کرتا ہے۔

a group of men discussing printed materials spread on a table.

پہلے، ہم نے ایک ’تصویری لیکچر ‘ شو تشکیل دیاجس میں جنسی رسالوں، ریکارڈ کے کورز، جرائد کے اشتہارات اور کومکس کی کتابوں کی تصویریں استعمال کیں۔ زیادہ تر تصویروں میں عورتوں کو تذلیل، پٹائی یا عصمت دری کا نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ مرد ان تصویروں میں تشدد کو دیکھ کر ذہنی دھچکے اور غصے میں مبتلا ہوں۔ کچھ مردوں کو ذہنی دھچکا پہنچا کچھ کو نہیں۔ اور اس سے مردوں کو یہ سمجھنے میں قطعی مدد نہیں ملی کہ مردانہ تشدد کا نظام کیسے کام کرتا ہے یا اس کے ذاتی طور پر ان پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔


جب ہم نے بات کی تو مردوں کی جانب سے غصے کا اظہار بھی ہوا۔ کچھ مردوں کو یہ محسوس ہورہا تھا کہ ان پر غلط الزام لگایا جارہا ہے۔ ہم نے مردوں کو بتایا کہ وہ طاقتور اور مراعات یافتہ ہیںاور اس قسم کا تشدد ان کی ذمے داری ہے۔ جن مردوں سے ہم نے بات کی انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہیں واقعی غصہ محسوس ہوا، ٹھیس پہنچی، کمزوری اور بے بسی کا احساس ہوا۔

پھر ہم نے ۱۳اور ۱۴سال کے لڑکوں کے ساتھ ورکشاپس کیں تاکہ انہیں یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ دنیا میں مرد مضبوط اور طاقتور ہیں اور عورتیں نہیں۔ نوجوانوں نے کہا کہ وہ طاقتور ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن نہیں ہیں۔ ہمیں بالآخر تسلیم کرنا پڑا کہ ہمارے معاشرے میں نوجوان مرد طاقتور نہیں۔ وہ اکثر خاندان، برادری اور ادارے کے تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ میں آیا کہ لڑکے اور لڑکیاں دونوںزیادہ تر بالغ مردوں کے ہاتھوں تشدد سہتے ہیں۔ لڑکوں کو اکثر یہی تشدد دوسروں کو منتقل کرنا سکھایا جاتا ہے۔ لڑکیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ بقیہ زندگی مردوں کے تشدد کو سہتے ہوئے گزاریں۔

ہم نے یہ سیکھا کہ مرد تبدیل ہوسکتے ہیںبشرطیکہ ہماری سمجھ میں یہ آجائے کہ ہماری تربیت مردانگی کے خطوط پر کیونکر ہوئی ہے اور اس عمل میں ہمیں کس تکلیف سے گزرنا پڑا ہےاور اس کے باوجود ہم خود جس تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں اس کی ذمے داری کس طریقے سے قبول کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ’انفرادی ذمے داری اور مرد کی حیثیت سے مردانگی کی توقعات کے خود پر اثرات‘ کے درمیان کیا تعلق ہے۔

تشدد کے بغیر مرد مضبوط کیسے ہوسکتا ہے؟

عورتوں کی صحت کا حامی گروپ، جس کے باقاعدگی سے اجلاس ہوتے ہیں، مردوں کو اس مسئلے پر بحث کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ وہ کس قسم کے مرد، بوائے فرینڈ، شوہر اور باپ بننا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ سیکھنے میں بھی کہ تشدد کو کیسے مسترد کیا جائے یا اس سے کیسے بچا جائے۔

اوآکساکا، میکسیکو میں مردوں کا ایک گروپ، ڈائیورسیڈاڈیس، بحث کے لیے اس قسم کے سوالات استعمال کرتا ہے:

  • تشدد نے آپ کی زندگی پر کیا اثر ڈالا ہے؟ لڑکپن میں آپ کو تشدد کا کیا تجربہ ہوا؟ نوجوانی میں؟
  • آپ اپنی خاندانی یا ذاتی زندگی میں تشدد کو کیسے استعمال کرتے ہیں؟ کس قسم کا تشدد؟ اپنے آپ سے پوچھیںکہ آپ تشدد کیوں کرتے ہیں؟ کیا کوئی اور راستہ ہے؟
  • تشدد کا آپ کی شریک حیات یا بچوں سے تعلق پر کیا اثر پڑتا ہے؟اگر تشدد نہ ہو تو معاملات میں کیسے بہتری آئے گی؟
  • تشدد کرنے یا اس سے بچنے میں لڑکے اور مرد ایک دوسرے پر کیا اثرات ڈالتے ہیں؟ آپ تشدد سے بچنے کے لیے دوسرے مردوں اور لڑکوں پر کیسے اثر انداز ہوسکتے ہیں؟

لڑکوں کو صنفی تشدد پر اعتراض کرنے میں مدد دینا

نوجوان لڑکوں میں مرد بننے کے بارے میں تیزی سے خیالات تشکیل پارہے ہوتے ہیں اس لیے یہ دور لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ صحت مندانہ تعلقات کی بنیاد ڈالنے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ ذیل میں ایک پروجیکٹ کی کہانی بیان کی گئی جس میں پورے سال اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ عرصے کے لیے نوجوان لڑکوں کے چھوٹے گروپوں کے ساتھ کام کیا گیا۔ پروجیکٹ کا مقصد لڑکوں کو اپنے اردگرد کی دنیا کا تجزیہ کرنے اور صنفی کرداروں کے بارے میں اپنے خیالات تشکیل دینے کے قابل بنانا تھا۔

تنقیدی فکر سے لڑکوں کو صنفی ناانصافی کے بارے میں سوال اٹھانے میں مدد ملتی ہے

۱۹۹۵ء اور ۲۰ ۱۰ء کے درمیان کانشینس ٹائزنگ میل اڈولِسنٹس (سی ایم اے)پروگرام کے تحت نائیجیریا میں ٢ہزار سے زائد نوجوان مردوں کو صنفی عدم مساوات کے بنیادی اسباب اور اس سے ہونے والے نقصان پر غور کرنے کی تربیت دی گئی۔ عورتوں کے خلاف تشدد پر بہت توجہ دی گئی کیونکہ یہ نائیجیریا کے معاشرے میں بہت عام ہے۔



سی ایم اے کے سوال جواب کے طریقے سے لڑکوں کو اپنے ابلاغ اور منطقی فکر کی صلاحیتیں اجاگر کرنے میں مدد ملی۔ آبروریزی کے بارے میں ایک گروپ مباحثے کی مثال ذیل میں دی گئی ہے۔

مباحثے کا لیڈر ابتدا میں لڑکوں سے پوچھتا ہے کہ رومانی لمحات میں ان کی گرل فرینڈ کیا کہتی ہے۔ لڑکے شوق سے ہاتھ اٹھاتے ہیں:

the group leader asking questions that the boys answer in turn.
سوال: رومانی لمحات میں آپ کی گرل فرینڈز کیا کہتی ہیں؟
جواب: ’’جان من، میں تم سے ہمیشہ محبت کرتی رہوں گی! ‘‘
’’میرے ساتھ رہو مجھے چھوڑ کر نہ جانا۔‘‘
سوال: اور لڑکیاں اس وقت کیا کہتی ہیں جب وہ جنسی فعل کی خواہش نہیں رکھتیں یا لڑکوں کے ساتھ وقت گزارنا نہیں چاہتیں؟
جواب: ’’بھئی مجھے چھوڑ دو۔‘‘
’’میرا موڈ نہیں۔‘‘
’’محبت کا جنس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
سوال: تو لڑکے یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ جب لڑکی ’نہ ‘کہتی ہے تو اس کا مطلب ’ہاں ‘ ہوتا ہے؟
جواب: ’’لڑکیاں ’ہاں ‘ کہتی ہوئی اچھی نہیں لگتیں اس لیے ہمیشہ ’نہ ‘ کہتی ہیں۔‘‘
’’یہ غلط ہے، لڑکیاں ہاں بھی کہہ سکتی ہیں۔ مجھے پتہ ہے۔‘‘
’’اگر لڑکی میرے گھر آتی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی بھی چیز کے لیے تیار ہے؟‘‘
سوال: لیکن اگر کوئی پڑوسن میرے گھر بات کرنے آتی ہے تو کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی بھی چیز کے لیے تیار ہے؟
جواب: ’’نہیں۔‘‘
’’الفاظ سے زیادہ افعال کی اہمیت ہوتی ہے۔ـ ‘‘
سوال: وہ کون سے افعال ہیں؟
جواب: ’’منی اسکرٹ پہننا . ..میرے قریب بیٹھنا. ..‘‘
سوال: اور جب میں اپنے کمرے میں نیکر پہن کر اور قمیض کے بٹن کھولے بیٹھا ہوں تو کیا اس کا مطلب ہے کہ میں جنسی عمل کے لیے تیار ہوں؟
جواب: ’’نہیں۔‘‘


اگلی سرگرمی کو کسی بھی گروپ کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سے خصوصاً مردوں کو صنفی تشدد کی عملی مخالفت اور حقیقی زندگی کی صورتِ حال میں اس کی روک تھام کے طریقے سوچنے میں مدد ملے گی۔ سرگرمی میں شرکأ یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ کسی مرد کو عورت پر تشدد کرتے دیکھ رہے ہیں یا ممکنہ تشدد یا جنسی حملے کے وقت موجود ہیں۔ پھر ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ کس طرح واقعے سے پہلے، واقعے کے دوران یا واقعے کے بعد، مداخلت کرسکتے ہیں۔ حملہ آور یا حملہ آوروں کا مقابلہ کرکے یا کسی نہ کسی طرح عورت کی مدد کرکے۔

سرگرمی راہگیر کا کردار

  1. ۔۱ اس کی تیاری کے لیے سوچ کر مختلف منظر ناموں کی فہرست بنائیں جو لوگوں کے مشاہدے میں آسکتی ہیں۔ آپ اس طرح کے منظر نامے استعمال کرسکتی ہیں جیسے ڈرامے کی تیاری میں دیے گئے ہیں اور اس کی تیاری کے لیے سوچ کر مختلف منظر ناموں کی فہرست بنائیں جو لوگوں کے مشاہدے میں آسکتی ہیں۔ آپ اس طرح کے منظر نامے استعمال کرسکتی ہیں جیسے ڈرامے کی تیاری میں دیے گئے ہیں اور مزید کا اضافہ کرسکتی ہیں جن کی مثالیں ذیل میں دی گئی ہیں:
    •      کسی تقریب کے باہر آپ کسی لڑکی کو دیکھتی ہیں جو شراب پیتی رہی ہے۔ ایک لڑکا اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے لیکن لڑکی تذبذب میں ہے۔
    •      ایک لڑکی تاریک سڑک پر اکیلی جارہی ہے۔ لڑکوں کا ایک گروپ اسے پکارتا، سیٹیاں بجاتا اور آوازے کستا ہےاور اس کا پیچھا کرنا شروع کردیتا ہے۔
    •      آپ کسی دوست کو جبری جنسی زیادتی کے بارے میں مذاق کرتے ہوئے سنتی ہیں۔
  2. ۲۔ لوگوں کو جوڑوں کی صورت میں تقسیم کردیں اور ہر جوڑے کو ایک صورت حال دیں۔ ان سے پوچھیں کہ کیا ہوسکتا ہے۔ وہ ایک فہرست بنائیں جس میں کم از کم چار طریقوں سے وہ اپنے ردعمل ظاہر کریں۔ انہیں بتائیں کہ انہیں ایسے طریقوں کے بارے میں سوچنا ہے جن کے ذریعے وہ تشدد کی روک تھام کرنے کے لیے مرد یا عورت سے بات کرسکیں۔ انہیں یہ بھی تصور کرنا ہوگا کہ واقعے سے پہلے، واقعے کے دوران اور واقعے کے بعد وہ کیا کرسکتے تھے۔ وہ صورت حال میں کوئی تبدیلی کیسے لاسکتے تھے؟
  3. ۳۔ ہر جوڑے سے کہیں کہ وہ اپنی صورت حال اور اپنے اقدامات کی فہرست دوسروں کو بتائے اور یہ وضاحت کرے کہ کون سا ردعمل ان کے لیے سب سے حقیقت پسندانہ ہوگا اور کیوں۔ لوگوں کی مدد کریں کہ وہ آسانی سے وہ بھی بتاسکیں جو کچھ ان کے لیے کرنا مشکل ہوگا اور کیوں مشکل ہوگا۔
  4. ۴۔ پورے گروپ کو مختلف خیالات پر بحث کرنے اور یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیں کہ کون سا ردعمل تشدد روکنے میں سب سے زیادہ کامیاب ہوگا۔


، پڑوسیوں او ر تشدد ہوتا ہوا دیکھنے والوں کے لیے تشدد کو روکنا کس طرح آسان بنایا جائے۔

a woman speaking.
خاص طور پر مردوں اور عورتوں کے ملے جلے گروپوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے کوشش کریں کہ صرف مردوں کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں۔ ہمیں مردوں کے ہاتھوں ہونے والے تشدد کو مسترد کرنے اور اس کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ مردوں سے محبت کرنے اور انہیں قبول کرنے کے طریقے بھی ڈھونڈنے چاہئیں۔ مردوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیں کہ عورتوں پر تشدد روکنے سے کس طرح سب کو فائدہ ہوتا ہے۔

سفید ربن مہم

انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور ہر شخص کے کسی اور فرد کے ہاتھوں تشدد اور جبر سے پاک زندگی گزارنے کے حق کی تحریکیں زیادہ پرانی نہیں۔ انسانی حقوق اور عورتوں کی صحت کے مسئلےکی حیثیت سے صنفی تشدد پر دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے لیے دنیا بھر کی خواتین صرف ۴۰برس پہلے منظم ہونا شروع ہوئی ہیں۔ چنانچہ بہت سی قومی اور بین الاقوامی تحریکیں ہیں جن کا مقصد صنفی تشدد کی ناانصافی کو بے نقاب کرنا اور ان قوانین، روایات اور عقائد کو تبدیل کرنے کے لیے حمایت اکٹھا کرنا ہے جو صنفی تشدد کو جائز قرار دیتے ہیں۔

2 men talking.
اس کا مطلب یہ عہد کرنا ہے کہ عورتوں کے خلاف کبھی تشدد نہیں کروں گا اور نہ اس بارے میں خاموش رہوں گا۔
تم ربن کیوںپہنے ہوئے ہو؟

کچھ مرد بھی خواتین کی تقلید کرتے ہوئے اپنی برادریوں میں تشدد کے اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے دیگر مردوں کے ساتھ منظم ہورہے ہیں۔ ان مردوں نے دیکھا ہے کہ بحث کا اس طرح آغاز کرنا مفید ہوتا ہے کہ لوگوں سے ہر ایک کے تشدد کے بغیر زندہ رہنے کے حق پر غور کرنے کو کہا جائے اور پھر ان سے پوچھا جائے کہ یہ حق مردوں اور عورتوں کے لیے مختلف کیوں ہونا چاہیے۔


سفید ربن مہم کا آغاز کینیڈا میں ۱۹۹۱ء میں مردوں کے ایک گروپ نے اس وقت کیا جب یونیورسٹی آف مانٹریال میں ایک مسلح شخص نے ۱۴طالبات کو ہلاک کردیا۔ اب یہ مہم دنیا بھر کے ۶۰ممالک میں پھیل چکی ہے۔ یہ دنیا میں مردوں کی جانب سے عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی سب سے بڑی کاوش ہے۔ ہر سال نومبر اور دسمبر میں دنیا بھر کے مرد تشدد کے خلاف ذاتی عہد کے اظہار کے لیے سفید ربن پہنتے ہیں۔ وہ تعلیمی تقریبات اور فلاحی گروپ بھی منظم کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچنے کے لیے ہر قسم کے ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی گروپ اس مہم میں شرکت کے لیے کسی برادری میں بہت سے لوگوں کو جمع کرسکے تو اس کے نتیجے میں بہت بحث مباحثہ ہوسکتا ہے۔